یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ۔۔۔ تحریر: نعیم ثاقب

پچھلے زمانے کی بات ہے تین آدمی کہیں راستے میں جا رہے تھے کہ اچانک بارش نے نہیں آ لیا۔ وہ تینوں بارش سے بچنے کے لیے پہاڑ کی غار میں گھُس گئے(جب وہ اندرچلے گئے)تو پہاڑ سے پتھر گرا اور غار کا منہ بند ہو گیا۔ تینوں بہت پریشان ہوئے مل کر زور لگایا مگر بھاری پتھر نہ ہٹا سکے۔ تھک ہار کر بیٹھ گئے اور آپس میں یوں کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ہمیں اس مصیبت سے اب تو صرف سچائی ہی نجات دلائے گی۔ بہتر یہ ہے کہ اب ہم میں سے ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ خالص اللہ تعالی کی رضا مندی کے لیے کیا تھا۔ چنانچہ ایک نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ!تجھ کو خوب معلوم ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھاجس نے چاول کی کچھ مقدار کے عوض مزدوری پر میرا کام کیا تھا لیکن وہ شخص کسی بات پر غصے میں آ کر چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑ گیا۔ میں نے اس کے چاول کو لیا اوراس کی کاشت کی۔ اس سے اتنا کچھ ہو گیا کہ میں نے پیداوار میں سے گائے بیل خریدلیے۔ اس کے بہت عرصے بعد وہی شخص مجھ سے اپنی مزدوری مانگنے آیا۔ میں نے کہاکہ یہ گائے بیل کھڑے ہیں ان کو لے جا۔ اس نے کہا کہ میرے تو صرف چاول تھے۔میں نے اس سے کہا یہ سب گائے بیل لے جا کیونکہ انہی چاولوں کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ پس اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ یہ ایمانداری میں نے صرف تیرے ڈر سے کی تھی تو، تُو غار کا منہ کھول دے۔ چنانچہ اسی وقت وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ پھردوسرے نے اس طرح دعا کی۔ اے اللہ!تجھے خوب معلوم ہے کہ میرے ماں باپ جب بوڑھے ہو گئے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوروزانہ رات کو اپنی بکریوں کا دودھ لا کرنہیں پلایا کرتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے میں دیر سے آیا تو وہ سو چکے تھے۔ ادھر میرے بیوی اور بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے لیکن میری عادت تھی کہ جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لوں، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا مجھے انہیں بیدار کرنا بھی پسند نہیں تھا اور چھوڑنا بھی پسند نہ تھا(کیونکہ یہی ان کا شام کا کھانا تھا اور دودھ کے نہ پینے کی وجہ سے وہ کمزور ہوجاتے)پس میں ان کا وہیں انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو تُو ہماری مشکل دور کر دے۔اس وقت وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا اور اب آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے یوں دعا کی۔ اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی جو مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی۔میں نے ایک بار اس سے صحبت کرنی چاہی، اس نے انکار کیا مگر اس شرط پر تیار ہوئی کہ میں اسے سو اشرفی لا کر دے دوں۔ میں نے یہ رقم حاصل کرنے کے لیے کوشش کی۔آخر وہ مجھے مل گئی تو میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کر دی۔ اس نے مجھے اپنے نفس پر قدرت دے دی۔ جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھ چکاتو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈر اور مہر کو بغیر حق کے نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی کھڑا ہو گیااور سو اشرفی بھی واپس نہیں لی۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ عمل تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو، تُو ہماری مشکل آسان کر دے۔ اللہ تعالی نے ان کی مشکل دور کر دی اور وہ تینوں باہر نکل آئے۔ یہ واقعہ کوئی قصہ کہانی نہیں حدیث شریف کامفہوم ہے اور ان تین لوگوں کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا(صحیح بخاری)
اور اب اس زمانے میں ایسے لوگوں کے قصے ہیں جومال و زر کی ہوس میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ ہزاروں لوگوں کو چھت دینے کا خواب دکھاکر ان کی زندگی بھر کی کمائی چھین لیتے ہیں۔ یہ لوٹ مار کرکے سر عام دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ یہ کسی سابقہ ڈپٹی کمشنر کے بیٹے ہوتے کسی سابقہ چیف جسٹس کے سمدھی، پیسے کی چمک سے یہ کمزور ججوں کو خریدتے اور سابقہ جرنیلوں کو ملازم رکھتے ہیں۔ اداروں کے راشیوں کو غلام اورمیڈیا کے حریصوں کو نوکر بنالیتے ہیں یہ خوش نما اور لچھے دار باتوں سے عوام الناس کاخون چوستے ہیں۔ہر روز کوئی نیا چہرہ کسی نئے منصوبے کے ساتھ بیچارے عوام کی جمع پونجی کو ہڑپ کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کبھی دولت کو دگنا(ڈبل شاہ)کرنے کے روپ میں تو کبھی عام منافع سے زیادہ نفع دینے کے روپ میں کبھی کاروباری اتار چڑھاؤکی باریکیوں کو لے کر انویسٹمنٹ کروانے کے روپ میں تو کبھی ہاؤوسنگ سوسائٹی میں رقم انویسٹ کرنے کے روپ میں کوئی نہ کوئی ٹھگ مل ہی جاتا ہے۔ماضی کے ٹھگ تو گمنامی کی زندگی میں اپنی عافیت محسوس کرتے تھے لیکن اب کی بارگمنامی سے نکل کربھرپوراشتہاربازی،میڈیا کوریج اورپبلسٹی کے سارے لوازمات کو بروئے کارلاتے ہوئے عوام الناس کے پیٹ میں ہضم شدہ خوراک تک نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں کوئی اک روپیہ بھی اور کوئی زیور کا چھوٹا سا ٹکڑابھی گھر میں پڑا نہ رہ جائے۔
مگر یہ بھول جاتے ہیں جب قدرت کا قانون حرکت میں آتا ہے تو پھر ایڈن ہاؤسنگ کے مالک ڈاکٹر امجد کی طرح کوئی پر اسرار بیماری موت کی دہلیز پر لے جاتی ہے اور فراڈ سے جمع کیا ہوا اربوں روپیہ بھی اس بیماری سے چھٹکارا نہیں دلواسکتا۔ لہٰذا مال و دولت جمع کرتے وقت یہ ضرور سوچیں کہ آپ کے مرنے کے بعد لوگ آپ کے لیے روئیں یاآپ کی جان کو روئیں۔ لہٰذا یاد رکھیں دنیاوی عدالت کے جج سے دوستی، رشتہ داری اورجان پہچان سے شاید کچھ عرصہ کے لیے ریلیف تو مل جائے۔ مگر حقیقی عدالت میں نہ تو پیسہ، نہ طاقت، نہ اختیار اور نہ ہی کوئی شفارش کام آنی ہے اور اس عدالت کا جج سب سے بڑاعادل اور منصف ہے۔ اور مت بھولیں کہ۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
بقول شاعر
یہی تجھ کو دھن ہے۔ دکھوں سب سے اعلیٰ
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا
تجھے حُسن ظاہر نے دھوکے میں ڈالا

متعلقہ خبریں