سماجی تفریق اور جغرافیائی حدود اپنی جگہ مگر خواہشات اور جذبات تقریبا” سب کےایک جیسے ہوتے ہیں انسان امیر ہو یا غریب ، کالا ہو یا گورا لندن میں رہتا ہو یا جہلم میں ، منفرد اور نمایاں نظر آنا چاہتا ہے ، اپنے ماحول سے ہٹ کر کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جس سے وہ اپنی دنیا میں ممتاز نظر آئے اور وہ اپنی اس دنیا کا ہیرو دکھائی دے، ویسے بھی ساڑھے سات ارب کی آبادی میں ایک شخص کی دنیا ہوتی ہی کتنی ہے اس کی فیملی ، قریبی رشتہ دار ، اور حلقہء احباب ۔جس کی اسے فکر ہوتی ہے اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو ہر انسان کی دنیا صرف اس کی فیملی ہی ہوتی ہے اور وہ اپنے پیاروں کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایک طرف غریب بیٹا بوڑھے باپ کے جھریوں زدہ چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کی خواہش میں بحیرہ روم کے گہرے پانیوں میں کشتی پہ رقص کرتی موت کا ہمسفر بن جاتا ھے تو دوسری جانب امیر ترین باپ ایک سو بارہ سال پہلے ڈوبے ٹائٹینک کی باقیات دیکھنے کی خواہش لیے چند میٹر اونچی آبدوز میں بیٹے سمیت بحر اوقیانوس کی عمیق تہہ کی جانب موت کے خطرناک سفر پر نکلتا ہے ۔
موت کے اس سفر کےعجیب اتفاقات ہیں ۔ڈوبتی ہوئی کشتی اور سمندر کی گہرائی میں اترتی ہوئی آبدوز دونوں کے آخری مناظر کی ویڈیوز تو بنی پر بچ نہ سکیں ۔، دونوں جانب کے مسافروں نے پیسے دیکر موت کے ٹکٹ خریدے ، کشتی والوں نے بائیس بائیس لاکھ روپے ادا کیے گئے تو آبدوز والوں نے ڈھائی ڈھائی لاکھ ڈالرز ۔ کشتی کے 500 مسافروں میں پاکستانی اور غیر ملکی تھے تو آبدوز کے پانچ مسافر بھی پاکستانی اور غیر ملکی ہی تھے ، ڈوبنے والی موت کی کشتی کے بھوکے پیاسے مسافر کئی دن اکھڑ ی سانسوں کے ساتھ موت کے منتظر رہے ہونگے تو کال کوٹھری جیسی تنگ و تاریک آبدوز میں بھی پانچ دن سے بیٹھے موت کا راستہ دیکھ رہے ہونگے ۔ کشتی کے نچلے حصے میں مرنے والے اور سمندر کے نچلے حصے میں موت کو دیکھنے والوں نے اپنی جانب بڑھتی موت کو لمحہ بہ لمحہ محسوس کیا ہوگا ۔ تو دونوں کی حالت ایک جیسی ہوئی ہوگی کشتی والے غریب لاچار بیٹے کو بوڑھے باپ کی یاد نے رولایا ہوگا تو آبدوز میں بیٹھا ارب پتی بے بس باپ بیٹے کی طرف دیکھ کر تڑپا ہوگا , کشتی والے کی بیوی کا مقدر عمر بھر کی سسکیاں ہیں تو آبدوز والے کی بیوی نے بھی ساری زندگی آہیں بھرنی ہیں ۔کشتی والے کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی تو آبدوز والے کی بھی رسوم غائبانہ ہی ادا ہونگیں ۔
تضاد دیکھئیے دونوں حادثات انسانی حقوق کے دعویدار ترقی یافتہ ممالک کے پاس ہوئے ، کشتی والے حادثے کے قریب کھڑے کوسٹ گارڈ کئی گھنٹوں سے ڈوبتی ، ہچکولے کھاتی ، لڑکھڑاتی کشتی کو دیکھ کر بھی مدد کے لیے نہ آئے ۔ دوسری جانب آبدوز والے حادثے میں ڈوبنے والوں کی کھوج کے لیے امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا سمیت کئی ملکوں نے اپنے جدید آلات اور ہر ممکن ذرائع استعمال کردئیے ۔ ایک طرف پانی اور کھانے پینے کی چیزیں پھینک کر مدد کی گئی تو دوسری طرف ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او وی) یا زیرِ آب کام کرنے والے روبوٹس اور رائل کینیڈین نیوی شپ ایچ ایم سی ایس گلیس بے کا استعمال کیا گیا انسان تو دونوں ہی تھے پھر یہ تضاد کیسا اور انسانی حقوق کا دعویٰ کیوں ؟
اب کچھ سوالات جن کے جواب جاننا ضروری ہیں ۔کیا یورپ جانے کی خواہش میں مرنے والوں کو بتایا گیا تھا کہ وہ ڈنکی ( چوری چھپے )جائیں گے ؟ اگر پتہ تھا تو کیا غیر قانونی سے جانے کی کوشش کرنا ٹھیک فیصلہ ہے ؟ دوسری جانب حلال کی کمائی سے اپنی جائز خواہشات کی تکمیل میں کوئی ہرج نہیں ۔ مگر کیا ایک ایسے شخص کو جانتے بوجھتے اتنا بڑا رسک لینا چاہیے جس کو اس کے مالک نے ہزاروں لوگوں کے رزق کا ذریعہ بنایا ہو ؟ ایک اور سوال اوشین گیٹ کمپنی نے اپنے سابقہ ڈائریکٹر میرین آپریشنز لوچریج کے تحفظات کو نظر انداز کیوں کیا ؟ اوشین گیٹ کمپنی کے چیف ایگزیکیٹو سٹاکٹن رش نے سب میرین انڈسٹری سے منسلک 38 ماہرین کی جانب سے لکھے گئے خط میں خطرات کی نشاندہی پر توجہ کیوں نہ دی ؟ کیا کمپنی کی جانب سے مارکیٹنگ کے دوران ممکنہ حضرات سے مسافروں کو آگاہ کیا گیا تھا ؟ یقینا” نہیں ! کیونکہ خواہشوں اور خوابوں کے سوداگر مسافر کو پھولوں اور گلابوں کا راستہ تو بتاتے ہیں پر ان سے جڑے کانٹے اوربیٹھی ہوئی بھڑوں کی بات نہیں کرتے ۔ سمجھ دار مسافر اپنی حد میں رہتے ہوئے راضی بہ رضا رہتا ہے اور مالک کائنات کی طرف سے دئیے گئے زندگی جیسے انمول تحفے کو بلا وجہ خطرات میں نہیں ڈالتا۔
یہ بھی پڑھیے