وہ کنفیوز سی ، جھلی سی ، بوکھلائی سی کام کے لیے دوڑتی پھرتی نظر آتی تو میں اسے کہتا کہ “ سودائنیں ” کیا کر رہی ہو ، سر جی ! اپنے پروگرام کے لیے پرانے گانے اور غزلیں ڈھونڈ رہی ہوں ! کبھی کہنا انٹرویو کرنا ہے باس نے کہا ہے گیسٹ کو کال کر رہی ہوں فون اٹینڈ نہیں کر رہا ہے کیا کروں ؟ کبھی رمضان ٹرانسمیشن میں واڈروب سے لیکر مہمان بلانے تک ہر کام میں مدد کرتی نظر آتی ! اخبار کے لیے رپورٹ لکھتی تو ٹی وی کے لیے پیکج بھی بنا رہی ہوتی ، ایک طرف ضیاشاہد صاحب کے پسندیدہ پروگرام پرانے گیت پرانی غزلیں کی میزبانی کرتی تو دوسری طرف خبریں اور چینل فائیو کے لیے شو بز کی رپوٹنگ بھی کرتی ! ناتجرکار ، سیدھی سادی صدف کولیگز کے مذاق کا نشانہ بھی بنتی تو مسکراتی رہتی پلٹ کے جواب نہ دیتی ، اپنی دھن میں مگن کام میں جتی رہتی اکثر میرے پاس بیٹھے پر عزم لہجے میں کہتی سر ان کے مذاق سے مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا میں نے محنت کرنی ہے اور ایک دن کچھ بن کے دکھانا ہے ۔ اس نے ہمت ،محنت ، لگن اور جنون سے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے دوڑ شروع کی تو قدرت بھی مہر بان ہو گئی ضیا شاہد صاحب جیسا جید صحافی استاد مل گیا،جو کسی بھی پتھر کو تراش کر ہیرا بنا سکتا تھا ۔ امتنان شاہد جیسا باس میسر آگیا جسے سکھانے اور کام لینے کا ہنر آتا ھے ۔ آنٹی یاسمین اور ڈاکٹر نوشین جیسی شفیق ہستیاں ملیں جو ہر مشکل وقت میں اس کی راہنمائی کرتیں ۔ ٹکر یا شاید مانیٹرنگ سے اپنی دوڑ کا آغاز کرنے والی صدف نعیم نے میوزیکل شو کی میزبانی سے لے سپورٹس ، پولیٹکس ، کرائم تقریبا ہر بیٹ کی رپورٹنگ کی اور دیکھتے دیکھتے خبریں گروپ کی ون مین آرمی بن گئی! مگر شاید ابھی اس کی دوڑ ختم نہیں ہوئی تھی شاید اسے ابھی اور دوڑنا تھا کچھ بڑا اور نمایاں کرنے کے کیے اپنے باس سے شاباش لینے کے لیے اس کی نظروں میں سرخرو ہونے کے لیے کیونکہ جن دنوں میں چینل فائیو میں تھا وہ کچھ بہتر کر کے ہمیشہ مجھ دے پوچھتی تھی سر ! میں نے یہ ٹھیک کیا ھے ؟ سر ! آپ کے خیال میں یہ باس کو پسند آ جائے گا سر آپ تو باس کے دوست ہیں آپ کو زیادہ پتہ ہوگا ۔ میں اس کا دل رکھتا اس کا حوصلہ بڑھاتا اور کبھی کبھار ایسے ہی کہہ دیتا کہ باس آپ کے کام کی تعریف کر رہے تھے وہ خوش ہوتی اور زیادہ جوش و جذبے سے کام شروع کر دیتی ۔
چینل فائیو چھوڑا تو صدف نعیم سمیت سب سے روزانہ کی ملاقات بھی ختم ہو گئی کبھی کبھار امتنان صاحب سے ملنے جاتا تو آتے جاتے پارکنگ میں صدف سے ملاقات ہو جاتی وہ ہمیشہ کی طرح دوڑتی پھرتی کہیں سے آتی یا کہیں جاتی ہوئی دکھائی دیتی ۔ ایک دفعہ ملی تو اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگی سر جی دیکھیں میری بات سنیں ، میں آپ کے کالم پڑتی ہوں۔ ان سے بہت کچھ سیکھتی ہوں ۔ میں نے ہنس کے کہا “ایویں نہ مار سودائنیں “ صدف نے سچی کہہ کر کالم کا ریفرنس بھی دے دیا ۔ “واہ سودائنیں تو تے سیانی ہوگئی ایں “ میں کہہ کر ہنستے ہوئے آگے بڑھنے لگا تو پر اعتماد لہجے میں بولی سر جی “دیکھیں میری بات سنیں بندے کو وقت کے ساتھ ساتھ سیانا ہونا پڑتا ہے ۔ ورنہ آپ زمانے کے ساتھ نہیں دوڑ سکتے – میں آگے بڑھتے ہوئے سوچنے لگا اس کے ارادوں سے تو لگتا ہے کہ یہ “ سودائین “بڑی اور لمبی دوڑ کی کھلاڑی بن گئی ہے۔
پچھلے سال دسمبر میں ایک بار صدف کا فون آیا کہنی لگی سر میں پریس کلب میں گورننگ باڈی کا الیکشن لڑ رہی ہوں مجھے یقین ہے آپ مجھے سپورٹ کرینگے میں نے حوصلہ بٹھا کر یقین دلایا اور دوستوں سے ووٹ بھی مانگے ، صدف جیت تو نہ سکی مگر پہلی دفعہ الیکشن لڑنے کے باوجود اچھے خاصے ووٹ لے کر کلب کی سیاست کی دوڑ میں شامل ہو گئی !
آج تقریبا ساڑھے پانچ بجے ایک اجنبی نمبر سے فون آیا ۔ سر عمر بات کر رہا آپ کے ساتھ چینل فائیو میں کام کرتا تھا سر میں لانگ مارچ میں عمران خان کے کنٹینر کے قریب ہوں یہاں ایک حادثہ پیش آیا جس میں کہا جا رہا ہے کہ چینل فائیو کی رپورٹر صدف نعیم شہید ھو گئیں ہیں آپ تصدیق کر سکتے ہیں دوسری جانب سے بولنے والے نے ایک سانس میں کہا ۔ مجھے ایک دم شاک سا لگا اور دماغ بھک سے اڑ گیا کہ ایسے کیسے ایک دم ابھی دو دن پہلے تو اس نے عمران خان کا انٹرویو کیا تھا ۔ میں نے وعدہ کیا کہ ابھی بتاتا ہوں پھر شکیل اور فرقان ہاشمی سے تصدیق کر کے عمر کو بتایا اس کے بعد تو جیسے فون کالز اور میسیجز کا تانتا بندھ گیا ۔ شاہد نزیر (ون پاؤنڈ فش )، کاظم خاں ,حسن رضا ، قیصر شریف ، شفیق اعوان ہمایوں سلیم ، کیپٹن میاں رزاق اور بے شمار دوستوں نے رابطہ اور افسوس کیا ۔ کیونکہ اس وقت تک نیوز کےُلیے دوڑتی ہوئی صدف نعیم تمام ٹی وی چینلز کی برینکنگ نیوز بن چکی تھی ۔
رات ایک بجے جنازہ تھا- میں نے اس کی میت کو کندھا دیا تو مجھے لگا شاید صدف میرے کان میں پوچھ رہی ہے سر جی دیکھیں میری بات سنیں میری یہ سٹوری کیسی ہے باس کو پسند آئے گی نا آپ تو دوست ہیں آپ کو تو پتہ ہوگا ؟
اب صدف تجھے کیسے بتاؤں کہ ابھی میری باس سے بات ہوئی ہے وہ تیرے کام تو خوش تھا ہی پر آج تیرے اس طرح جانے سے بہت افسردہ اور غمگین ہے شاید تو ان چند لوگوں میں سے ھے جسے وہ کبھی نہ بھلا پائے گا ۔ اور ہاں “ سودائنیں “ تو تو بڑی سیانی نکلی صحافت کے میدان میں ایسی دوڑ لگائی کہ سب کو اور سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا ۔ بڑے بڑے صحافی ، سیاستدان اور بیوروکریٹ تیرے پیچھے دوڑ پڑے ! اور ہاں آج کے بعد جب بھی کسی ، محنتی ، باہمت اور جنونی میڈیا ورکر کی بات ہو گی تو تمہاری آخری دوڑ کی مثال ضرور دی جائے گی !
بقول شاعر !
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے