ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

من حیث القوم ہم بہت سخی ہیں ۔۔صرف چغلی اور کسی کی برائی کرنے میں ۔۔۔اور بہت کنجوس ہیں تعریف اور دوسرے کی اچھائی بیان کرنے میں ۔۔۔ یہ سخاوت ہمیں ہر محفل ، ہر اخبار اور ہر ٹی وی پہ نظر آتی ہے ۔مگر معاشرے میں کنجوسی اچھے کردار کی مانند نایاب ہوگئی ہے ۔ ہم تعریف کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، سراہتے ہوئے شرماتے ہیں ۔کسی کی کامیابی میں ہاتھ بٹانے کی بجائے ناکام بنانے کے لیے پوری قوت لگاتے ہیں ۔ اور مزے کی بات یہ کہ ہماری یہ سخاوت اور کنجوسی اکثر اپنے قریبی رشتہ داروں ، دوستوں اوران لوگوں کے لیے ہے جو ہمارے ساتھ کھاتے پیتے اور اٹھتے بیٹھتے ہیں۔یا اس کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جو آگے بڑھ کر معاشرے کے لیے کچھ کرنا بہتر چاہتے ہیں ۔ان پر الزامات لگائے جاتے ہیں لوگ ان کے لیے اچھا گمان کرنے کی بجائے بدگمانی کا ہی شکار رہتے ہیں حالانکہ اس کی اجازت نہ تو کوئی مہذب معاشرہ دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا مذہب ۔مالک کائنات نے صرف بدگمانی سے ہی منع نہیں فرمایا بلکہ کثرت گمان سے بھی روکا ہے ۔
[الحجرات: 49/ 12]
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے بعض دوسرے کی غیبت کرے-‘‘۔
اب ذکر ان لوگوں کا جو مخالفت ،تنقید اور بد گمانی سے گھبرائے بغیر ، حالات کا رونہ رونے کی بجائے اپنے عزم اور پختہ ارادے سے ناممکن کو ممکن کر دکھاتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ پر بھروسہ اور اپنے آپ پر پر اعتماد کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے initiative لیتے ہیں اور مستقل مزاجی ،محنت اور لگن سے پوری قوت کے سے ڈٹ جاتے ہیں اور کچھ کردکھاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پلٹ کر جواب دینے کی بجائے اپنی کامیابی کو اپنا جواب بنا دیتے ہیں ۔یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے معاشرے پھلتے پھولتے اور ملک ترقی کرتے ہیں ۔
اب ذکر اس فون کال جو ہمدم دیرینہ ایڈیشنل ڈی جی آپریشنز اینڈ لائسنسگ پنجاب فوڈ اتھارٹی آصف ڈوگر نے کی اور کالمُ لکھنے کی وجہ بنی ۔ فون پر آصف نے بتایا کہ یار پنجاب فوڈ اتھارٹی فولڈ ایکسپو کا پلان کر رہے ہیں آپ کسی دن اس سلسلے میں آفس چکر تو لگائیں ۔ خیر میں نے اس بات کو زیادہ سنجیدہ نہ لیا کیونکہ گورنمنٹ اداروں کے ساتھ کام تجربہ بہت اچھا نہیں اس وجہ فیصلہ سازی ، افسران بالا سے منظوریاں اور دیگر مسائل شامل ہیں ۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک افسر کوئی منصوبہ شروع کرتا ہے تو اسی دوران اس تبادلہ ہو جاتا ہے اور سارا منصوبہ دھرے کا دھرہ رہ جاتا ہے ۔ مگر فوڈ ایکسپو کے سلسلے میں ہونی والی پہلی میٹنگ میں مجھے خوشگوار حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی مدثر ریاض ملک نے صرف تین منٹ میں وی ایکسپو کا پلیٹ فارم دیکھنے کے بعد کہہ دیا کہ ہم فوڈ ایکسپو میں ورچوئل پارٹ بھی رکھیں گے ۔ مدثر ریاض ملک سے پہلی ملاقات میں ان کی قوت فیصلہ کا قائل اور فوڈ ایکسپوکی کامیابی کے لیے دعا گو ہو گیا۔ ایسا ایونٹ فوڈ اتھارٹی نے 2018 میں منعقد کیا تھا اور اب پانچ سال کے وقفے کے بعد اس کا آغاز دس فروری کو ہوا۔ اور فوڈ ایکسپو پلس تین دن تک جاری رہی ۔ اس شاندار ایونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے نہ تو سرکاری خزانے سے فنڈز نہیں لیے گئے اور نہ ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے کسی سپانسر سے خود پیسے وصول کیے بلکہ اس سارے عمل کو شفاف اور کامیاب بنانے کے لیے فوڈ انڈسٹری سے منسلک اچھی شہرت کے حامل افراد پر مشتمل مینجمنٹ کمیٹی بنائی گئی اور فوڈ اتھارٹی نے اپنا کردار کوارڈینیشن اور سپر ویژن تک محدود رکھا۔ جو فوڈ اتھارٹی کے ڈی جی موثر ریاض ملک اور ان کی پوری ٹیم کی پر خلوص اور دیانتدارانہ حکمت عملی کا ثبوت ہے ۔ اور اس کے علاوہ انہوں نے ایونٹ کے بجٹ کی شفافیت کے لیے پرائیویٹ فرم سے تمام اخراجات کا آڈٹ بھی کروایا ۔فوڈ ایکسپو پلس جس کاافتتاح نگران وزیراعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی نے کیا چار ایریاز میں تقسیم کی گئی تھی اور فوڈ اتھارٹی کی الگ الگ ٹیمیں ان ایریاز کی نگرانی کررہی تھیں ان میں فوڈ سٹال ، پراڈکٹس کی نمائش ، فوڈ سیفٹی اور فوڈ سیکورٹی پر بینالاقوامی کانفرنسز ، اور انٹرٹینمنٹ کے لیے کانسرٹ شامل ہے ۔ وزٹرز کے لیے فری پاسز جاری کیے گئے جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تقریبا” دس لاکھ لاہور یوں نے اس تین روزہ ایکسپو میں شرکت کی جو کسی بھی ایونٹ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس فوڈایکسپو کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ایونٹ ختم ہونے بعد ڈی جی فوڈ مدثر ریاض ملک نے تمام سٹیک ہولڈرز کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے تقریب رکھی اور سب کا شکریہ ادا کیا جو کہ یقینا” ایک قابل تحسین عمل ہے ، کیونکہ ہمارے ہاں کام سے سے پہلے تو عزت و تکریم کی جاتی ہے اور اس کے بعد توں کون تے میں لوں ۔
ہمارے ملک میں محنت اور لگن سے کام کرنے والے کم جبکہ اسی جذبے سے کام خراب کرنے اور کام میں کیڑے نکالنے والے زیادہ ہیں ۔اگر حکومت اور افسران بالا مدثر ریاض ملک جیسے پرعزم اور متحرک افسران کے Positive Initiatives کو Appriciateاور support کریں تو اس سے دوسرے افسران میں بھی کام کرنے کا جذبہ اور حوصلہ بڑھے گا جس ملک کے انتظامی مسائل حل ہو سکیں گے۔
بقول شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال۔
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشت ِویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

متعلقہ خبریں