آزادی اور مادر پدر آزادی میں فرق ! ۔۔۔ تحریر: نعیم ثاقب

سوشل میڈیا سے چند قابل اعتراض تصاویر کے بارے میں پتہ چلا تو ذہن ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تقریباً پندرہ کلومیٹر دور ، رجانہ سے دو کلومیٹر پہلے بائیں ہاتھ واقع گاؤں ۲۹۱ گ ب کے پرائمری کی جانب چلا گیا ۔ یہ گاؤں کا واحد سرکاری سکول ھے ۔ جہاں سے مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے پانچویں کی ۔ سکول میں نہایت قابل احترام استاد جہانگیر صاحب ھوا کرتے تھے جن کو سارا گاؤں پیار سے ماسٹر جنگی کہتا تھا ماسٹر تھوڑے سخت اور بااصول انسان تھے اور اسی لیے سارا سلول ان ڈرتا تھا۔ پڑھائی کے علاوہ صفائی اور پاکستان ان کا عشق تھے یہی وجہ تھی سکول کی صفائی (جو زیادہ تر گراونڈز سے درختوں کے پتے اٹھانا ہوتی تھی )۔ ۲۳مارچ ، ۱۴ اگست ، ۶ ستمبر ، اور قائداعظم ڈے کی تقاریب میں حصہ لینا میری پسندیدہ ترین غیر نصابی سرگرمیاں تھیں ۔ ماسٹر جنگی نے خصوصی طور ۱۴ اگست کے لیے مجھے تقریر لکھ کر دینی اور میں نے پورے گاؤں میں دوڑتے بھاگتے رٹا لگاتے رہنا ۔جب سودا سلف لینے ابو کے دوست چچا شیر کی دوکان پر جانا تو وہاں بیھٹے ان کے دیگر دوستوں جن میں چوہدری اسلم کھیوا، اور انتہائی شفیق پیر یوسف شاہ صاحب نے فرمائش کرنی کہ تقریر سناؤ ۔ میں نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے میں بھر ے بازار میں رٹی ہوئی تقریر شروع کردینی اور تقریر کے آخر میں پورے جوش اور ولولے کے ساتھ شعر پڑھنا
’’خون دل دے کے نکھارینگے رخ برگ گلاب ،ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
اور شعر ختم ہوتے ہی اس سے بھی زیادہ جوش سے “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگانا ۔چچا شیر نے مرونڈا یا مونگ پھلی اور پیر یوسف شاہ نے “چونی “ بطور انعام دینا اور حوصلہ افزائی کے لیے زور زور سے تالیاں بھی بجانا۰ یہ تھے ہمارے استاد اور ہمارے بڑھے جو خود بھی وطن عزیز سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور طریقے سلیقے سے ذہنوں میں وطن کی اہمیت اجاگر کرنے کا فرض پورا کرتے رہتے تھے ۔ حالانکہ اس وقت ہماری چھوٹی سی عقل کو نہ تو خون دل کی سمجھ تھی نہ رخ برگ گلاب کا ادراک ۔ بس اتنا پتہ تھا کہ قائداعظم اور مسلمانوں نے پاکستان بڑی قربانیاں دے کر حاصل کیا اور ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے ۔
خیر بات ہورہی تھی انسٹاگرام ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ان قابل اعتراض تصاویر جن کے مطابق شہر اقتدار میں ایکسپریس ہائی وے پر موجود بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر اور ان کے افکار ’ایمان، اتحاد، تنظیم‘ کے سامنے گذشتہ دنوں ایک لڑکا اور لڑکی نے قابل اعتراض فوٹو شوٹ کروایا ۔ فوٹو شوٹ میں وہ قائداعظم کی تصویر کے سامنے نہایت کم اور قابل اعتراض لباس پہنے کھڑے تھےتصاویر منظر عام پر آنے کے بعد ان پر سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کی جا رہی ہے اور ان نوجوانوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے جس کی وجہ فوٹو شوٹ کرنے والے نوجوانوں کے خلاف مقدمہ کورال پولیس سٹیشن میں ایک شہری کی مدعیت میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 294 کے تحت درج کرلیا گیا ہے۔ درخواست کے مدعی نے مطالبہ کیا ھے کہ ’اسلام آباد میں کورال چوک پر نصب قائداعظم کے پورٹریٹ کے سامنے لڑکے اور لڑکی کا ڈانس کرنا اور تصاویر بنانا ہمارے عظیم قائد کی عزت کی پامالی کی ھے تصاویر کا فرانزک ٹیسٹ کروا کے سزا دی جائے ۔ یاد رہے دفعہ 294 کے تحت اگر کوئی شخص عوامی مقام پر غیر اخلاقی حرکات، نازیبا کلمات ادا کرنے کا جرم کرتا ہے تو اس پر زیادہ سے زیادہ تین ماہ قید یا جرمانہ یا دنوں سزائیں ہو سکتا ہے ۔
مقدمہ درج ھوگیا شاید ملزم پکڑے بھی جائیں پر سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ کیا قائداعظم کی تصویر اور افکار کے نیچے فوٹو شوٹ کروانے بچوں کو کسی نے قائداعظم اور ان کے فرمودات کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ہے کیا ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ 3 اپریل 1948 ء کو بانی پاکستان نے فرمایا تھا ۔” ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں” کیا کبھی اپنے بچوں کو پڑھ کے سنایا کہ
25 جنوری 1948 ء کو ہمارے قائد نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا
” آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی
کیا بچوں کو پتہ ہے کہ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس جو کہُ15 نومبر 1942 ء کو منعقد ہوا تھا اس میں قائد اعظم نے کہا تھا :
‎” مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز “حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا
اگر ان فرمودات اور دیگر افکار کے بارے میں اساتذہ ، والدین اور بڑے بچوں کو نہیں بتاتے تو ایسے بچے یہی سمجھیں گے کہ قائداعظم نے یہ ملک آزادی کے لیے حاصل کیا ہے اور ایسے گمراہ نوجوانوں کے لیے آزادی اور “مادر پدر آزادی “ کے مطلب میں کوئی فرق نہیں ۔

متعلقہ خبریں