کامیاب اور ناکام لوگ ۔۔۔ تحریر: نعیم ثاقب

پاکستان میں ایکسپو (Expo) کے باوا آدم خورشید برلاس صاحب زندہ دل ، ہنس مکھ اور بڑے محنتی انسان ہیں۔ نئے نئے آئیڈیے پر کام کرتےہیں ۔ پاکستان صنعتی نمائش ،میڈ ان پاکستان ، پاکستان ہینڈی کرافٹ سمیت ان ایکسپوز کروا چکے ہیں ۔ یو کے پاکستان بزنس کونسل اور پاکستان ایسوسی ایشن آف ایکسپو انڈسٹری کے بانی بھی ہیں ۔ ان سے میری پہلی ملاقات انتہائی نفیس شخصیت کے مالک راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے موجودہ صدر ناصر مرزا صاحب کے ساتھ ہوئی ۔ اور پھر یہ ملاقات دوستی اور عقیدت میں بدل گئی ۔ ان سے گاہے بگاہے رابطہ رہنے لگا ۔ کچھ دن پہلے ایک نئے پراجیکٹ کے سلسلے ان سے بات ہو رہی تھی تو کسی بات پر اپنے مخصوص انداز قہقہہ لگا کر کہنے لگے ۔آپ بھی میری طرح جنونی ہو اور جنونی لوگ مجھے بہت پسند ہیں ۔کیا مطلب ! میں سمجھا نہیں میں نے پوچھا ؟ برلاس صاحب کہنے لگے جنونی مطلب متحرک اور ایکشن میں رہنے والے ، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے باتوں کی بجائے عمل کرنے والے ، دوڑ لگانے والے، دن رات ایک کرکے منزل تک پہنچنے کی جدوجہدکنے والے جنونی ہی تو ہوتے ہیں ۔
فون بند ھوا تو کسی دانا کا قول یاد آگیا کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری ”کامیابی“ شور مچا ئے ۔ کامیاب اور ناکام لوگوں میں بنیادی فرق ا”ایکشن “ یعنی عمل کاہے ناکام لوگ بھی بڑے خواب دیکھتے ہیں ، ارادے باندھتے ہیں ،منصوبے بناتے ہیں ۔ بلندوبانگ دعوے کرتے ہیں مگر یہ اپنے اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہو پاتے یہ صرف اپنے ہوائی قلعوں میں بیٹھ کر خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں ۔ ان کی کامیابی کی راہ میں جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ “عمل“ ہے
جبکہ بڑا اور کامیاب آدمی باتوں کی بجائے ”عمل“ پر توجہ دیتا ہے۔ ارادے اور منزل،خواب اور تعبیر ، خواہش اور تکمیل کے درمیان بھی صرف عمل کی کمی ہوتی ہے۔ کامیاب آدمی باتوں کی بجائے کام کرتا ہے اور ناکام آدمی کام کی بجائے باتیں ۔ دنیا باشعور ، عقلمند ، دانشور ، زمانہ ساز اور اہل علم ناکام لوگوں سے بھری ہوئی ھے ہیں ۔ انکی ناکامی کی وجہ بھی عمل کی کمی ھے ایسے لوگ فیصلہ سازی میں بہت کمزور ہوتے اور زندگی بھر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔جو لوگ حرکت میں بر کت پر یقین رکھتے ہیں وہ بڑے خواب دیکھتے ہیں ان کی تعبیر کے لیے کمر کس کر ایکشن لیتے اور منزلوں کو فتح کر لیتےہیں ۔
سورہ النجم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
”ترجمعہ:اور انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ھو “
مشہور چینی کہاوت ہے ”ایک ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔”
اور پہلا قدم ہمیشہ مشکل ہو تا ہے۔خوابوں کی تعبیر آسانی سے تو نہیں ملتی اس کے لیے عمل کرنا ، خون تھوکنا ، جنوں دکھانا ۔ پسینہ بہانا اور کشت اٹھانا پڑتا ہے ۔ کامیابی عمل اور جستجو سے حاصل ھوتی ھے دعوؤں اور نعروں سے نہیں ۔ عمل کرنے اور صرف اعلان کرنے میں بہت فرق ہوتا ھے ۔ شہرہ آفاق ماہر نفسیات سی جی جنگ نے کہا ، "تم وہی ہو جو تم کرتے ہو ، وہ نہیں جو تم کہتے ہو کہ تم کرو گے۔” اگر کامیابی چاہتے ہیں تو روزانہ ایسے اقدامات کریں جو آپ کو اپنے مقاصد کی تکمیل کی طرف لے جائیں۔ چھوٹا عمل بلند دعوے سے بہتر ہوتا ھے اور عمل کے بغیر ایمان بھی مشکوک ہو جاتا ہے نیت کچھ نہیں ہے عمل سب کچھ ہے۔ مقاصد کا حصول محض خیالوں اور تقر یوں سے ممکن نہیں ۔ کامیابی چاہتے ہیں تو شور مت مچائیں اپنے ارادے کو سینے میں چھپائیں اور آگے بڑھتے جائیں ہیں آپ جتنے بڑے مرضی ویژنری ہوں بغیر عمل کے ویژن صرف دھوکہ ہو تا ہے۔ اپنی کامیابی کے متعلق سوچیے اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کام شروع کر دیجیے۔ خواب ذہن میں ہی رہ جائیں تو روگ اور پچھتاوا بن جاتے ہیں اور اوریہ پچھتاوا آپ کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے۔ مایوسی اور ڈپریشن کا علاج صرف اور صرف عمل ہوتاہے۔ عمل اعتماد ،ہمت اور حوصلہ پیدا کرتا ہے۔یہ خوف کا تریاق ہے اگر آپ خوف پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ذہن میں ناکامی کی بجائے اپنی کامیابی کا سوچیے۔اور پہلا قدم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ جہاں ہیں وہاں نہیں رہیں گے”۔ سب سے مشکل چیز عمل کرنے کا فیصلہ ہےاور باقی استقامت ہے۔ سوچنا چھوڑیں ، کرنا شروع کریں ۔ صرف ناممکن سفر وہ ہے جسے آپ نے کبھی شروع نہیں کیا ۔
بقول شاعر !
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا
تُو کب تک دیر لگائے گا
یہ وقت بھی آخر جائے گا
اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے ؟
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے !
جو موقع پا کر کھوئے گا
وہ اشکوں سے مُنہ دھوئے گا
جو سوئے گا وہ روئے گا
اور کاٹے گا جو بوئے گا
تو غافِل کب تک سوئے گا
جو ہونا ہے وہ ہوئے گا
اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے ؟
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے !
یہ دُنیا آخر فانی ہے
اور جان بھی اِک دن جانی ہے
پھر تجھ کو کیوں حیرانی ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
جب ہمّت کی جولانی ہے
تو پتّھر بھی پھر پانی ہے
اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے ؟
پھر دیکھ خُدا کیا کرتا ہے !
واصف علی واصف کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹا دل نہیں رکھتے۔جن لوگوں کی منزلیں اور مقصد بڑے ہوتے ہیں ان کے دل میں کسی چیز کا خوف نہیں ہو تا بس دل اور دماغ میں ایک ہی لگن ہوتی ہے کہ ہم نے کامیاب ہو نا ہے اور جنکے دل چھوٹے ہوتے ہیں انکے لیے شاعر نے کیاخوب کہا ہے۔
جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے

متعلقہ خبریں