گیارہواں سرٹیفیکیٹ ۔۔۔ تحریر: شیر محمد اعوان

چند دن پہلے وزیراعظم پاکستان نے "پہلی بار” دس وزارتوں کے وزراء کو بہترین کارکردگی کے سرٹیفیکٹ تھمائے۔وزراء خوش جبکہ عوام گال پھلائے نظر آئے۔وہ اس بات پر حیران تھے کہ اگر اتنی ساری وزارتیں بہترین کارکردگی دکھا رہی ہیں تو انکے حالات دن بدن بدتر کیوں ہو رہے ہیں لیکن ناسمجھ لوگ بھول گئے کہ وزیراعظم مافوق الفطرت بصیرت کے حامل ہیں۔اس لیے وزارتوں کا نہ نظر آنے والا کام دیکھنے کی صلاحیت کے سبب وہ عوام سے بہتر جانتے ہیں۔شاید اسی لیے انہوں نے سرٹیفیکٹ دے کر نا صرف شاباش دی بلکہ اس کارکردگی کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ان تاریخی وزارتوں کیلیے میرٹ کیا ہےیہ تو علم نہیں لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے”تاریخ رقم کرنا ” .قطع نظر اس کے کہ وہ نیک نامی میں ہو یا بدنامی میں، عوام کی مشکلات کم کرنے میں ہو یا بڑھانے میں بہر حال تاریخ رقم کی گئی۔

وزارت داخلہ کا قلم دان سنبھالنے والے شیخ رشید صاحب بھی سرٹیفیکیٹ لے کر پھولے نہیں سما رہے۔جب سے انہیں یہ وزارت ملی شاید ہی کوئی دن ہو جب خبر کی منڈیر پر آفت کا کوا نہ بیٹھا ہو۔دھماکوں کی خبر، چیک پوسٹ پر حملے، دن دیہاڑے ڈکیتیاں، مصروف شاہراوں پر اغوا اور قتل کے واقعات، دارالخلافہ میں بڑھتی وارداتیں، پولیس گردی غرض ہر طرح کی خبر تواتر سے سننے کو ملتی ہے۔اگر اس چیز کو بنیاد بنایا جائے تو انہیں خوش ہونے کی بجائے افسردہ ہونا چاہیے۔کیونکہ انکی سابقہ وزارت کی خدمات کو سامنےرکھتے ہوئے انہیں پہلے نمبروں میں رکھنا چاہیے تھا کیونکہ ان دنوں ہونے والے ٹرین حادثات خود ایک تاریخ ہیں۔
ایک زرعی ملک جب گندم، چینی، کپاس سب درآمد کر کے”تاریخ رقم” کر رہا ہے تو فوڈ سیکیورٹی کی وزارت کو سرٹیفیکیٹ دینا بھی مشترک قدر کا ثبوت ہے۔انسانی حقوق والی وزارت کی کارکردگی کا اندازہ لگائیے کہ "مسنگ پرسن ” کا بل ہی "مسنگ ” ہو گیا۔وزارت تعلیم کی کارکردگی تو نہ پوچھیں۔کبھی اساتذہ سڑک پر تو کبھی طلباء، جامعات کے فنڈز بند، بچے بغیر امتحانات پاس ،یکساں تعلیم سے یکساں نصاب پر عوام کو بےوقوف بنایا گیا اور دو سو والی کتاب چار سو کی کرنے کے بعد حکم نامہ جاری کیا کہ جو سکول یکساں نصاب کے علاوہ کتب پڑھائیں گے وہ "اے کیٹیگری ” تصور کیے جائیں گے۔یوں یہ وزارت بھی سرٹیفکیٹ لے اڑی۔ اگرچہ آپ تحقیق کریں تو پتہ چلے کہ کتنے لاکھ لوگ بےروزگار ہوئے اور کتنے لاکھ خط غربت سے نیچے گئے لیکن غربت پر اعدادوشمار چیک کرنے کی ضرورت ہی نہیں بس اپنے آجو باجو میں دیکھیں گے تو لوگوں کے بگڑتے معاشی حالات اس وزارت کی کارکردگی اور دعووں کا پول کھول دیں گے۔مختصر یہ کہ آپ جس وزارت پر نظر ڈالیں گے یہی معیار نظر آئے گا۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس تقریب تقسیم اسناد نے موجودہ حکومت کے تنظیمی منشور کا بھرکس نکال دیا۔کسی بھی ملک کی ترقی کیلیئے معیشت، تعلیم، صحت، بہترین گورنس ، خارجہ امور اور دفاع اہم عوامل ہیں۔یہی سب حکومتی پارٹی کے منشور کا حصہ اور اہم اہداف تھے۔لیکن آپ دیکھئیے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے والی کتنی وزارتیں پہلی پانچ سند یافتہ وزارتوں میں شامل ہیں۔
چار سال گزارنے کے بعد وزیراعظم اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق اہداف حاصل نہ کرنے پر سوچ بچار کرنے اور ان وزارتوں سے جواب طلب کرنے کی بجائے جب بغلیں بجاتے ہوئے دس اسناد بانٹتے ہیں تو وہ میرٹ پر پورا اترتے ہیں گیارہواں سرٹیفیکیٹ انکو ملنا چاہیے ۔

متعلقہ خبریں