خطیب العصر مولانا سیدعبدالمجید ندیم شاہ ۔۔۔۔ تحریر: عمرفاروق

شاہ صاحب کی آواز کی خوبصورتی اور ترنم لفظوں میں نہیں سماسکتا ہاں اس کیف وسرور کو سن کر محسوس کیا جاسکتاہے۔فصاحت وبلاغت اور مرقع ومسجع گفتگو آپ کے خطاب کا حسن تھی،آپ کے خطبات میں ادبیت ،طرزاستدلال اورگفتگومیں باہمی وربط ہوتاتھا دوران خطاب الفاظ کی صحت وادائیگی اوراتارچڑھائوکابھرپورخیال رکھتے تھے ۔موقع ومحل کی مناسبت سے ترنم کے ساتھ جب اشعارپڑھتے توسامعین پروجدطاری ہوجاتاتھا اوراسی اندازمیں جب اللہ کاذکرکرواتے تو طبیعتیں بے خود ہوجاتیں ۔
قرآن اس قدر خوبصورت اور شیریں آواز میں پڑھتے تھے کہ طبیعت اک عجیب سا انبساط اور سرور محسوس کرتی۔آپ کااندازدلنشیں اوربہت ہی پراثرتھا وہ ایک ایسے خطیب تھے جوخطبہ شروع کرنے کے ساتھ ہی مجمع کی نبضیں اپنی گرفت میں لے لیتے تھے۔قرآن کی تلاوت اس قدرپرسوزلہجے میں کرتے تھے کہ سامعین کی خواہش ہوتی تھی کہ بس تلاوت ہی کرتے رہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تلاوت قرآن کی لذت حاضرین کے قلب و ذہن میں پیوست ہو کر رہ جاتی، خود بھی تڑپتے اور ہزاروں لوگوں کو بھی تڑپاتے تھے ۔جی ہاں بات ہورہی سفیراسلام ،خطیب العصر،خوش الحان خطیب و مبلغ مولاناسیدعبدالمجیدندیم شاہ کی جن کوبچھڑے آٹھ سال بیت چکے ہیں ،3دسمبر2015کوعظیم یہ خطیب اس دنیاسے رخصت ہوگیامگران کی یادیں ابھی بھی باقی ہیں ۔
آج بھی جب میں تنہائی میں پریشانی محسوس کرتاہوں تودل ودماغ شاہ صاحب کی طرف چلاجاتاہے چنددن قبل بھائی فاروق ندیم شاہ کومیسیج کیاکہ شاہ صاحب کے ذکروالی کوئی تقریربھیج دیں توانہوں نے چکوال کی تقریربھیج دی جس میں وہ علامہ اقبال کی مشہورنظم مجھے ہے حکم اذاں پڑھ رہے تھے ۔
مولاناعبدالمجیدندیم نے پوری دنیا اپنی مسحورکن آواز کی دھاگ بٹھائی،137ممالک کے اسفارکیے کئی ممالک میں تووہ متعددبارتشریف لے گئے ،پاکستان کا شایدکوئی ہی چھوٹابڑاشہریاقصبہ ہوگاجہاں انہوں نے خطاب نہ کیاہو۔2017/18میں گوادرکے سفرپرتھا تو وہاں ایک مسجدمیں حضرت شاہ صاحب کے پرانے پوسٹرلگے ہوئے نظرآئے ۔امام مسجدسے اس بابت دریافت کیاتوانہو ں نے کہاکہ یہاں کے مچھیرے حضرت شاہ صاحب کی تقریرکے عاشق تھے حضرت یہاں کئی بارتشریف لائے۔غرضیکہ ساری زندگی وہ شہروں اور دیہاتوں میں جگہ جگہ اپنے مواعظ، بیانات اور خطابات کے ذریعے عام سادہ لوح مسلمانوں کے عقائد کی درستگی اور توحید و سنت کی تعلیم و تبلیغ کرتے رہے ، ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے دریا تیر کر بھی جلسوں میں شرکت کی ہے۔
مولانا55سال تک توحید و سنت کی اشاعت، شرک و بدعات کے رد، دتحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس اصحاب و اہل بیت،اصلاح معاشرہ ،وحدت امت کی دعوت وتبلیغ کرتے رہے اوراللہ تعالی کے بندوں کو اللہ تعالی کا قرآن سنایا اور ان کو دین کے راستے پر لگایا۔ سینکڑوں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ حضرت شاہ صاحب مسئلہ توحید کو بڑے سادہ اور دلنشین انداز میں لوگوں کے قلوب و اذہان میں راسخ فرماتے تھے۔ مسئلہ توحید بیان کرنے کے بعد لوگوں سے سوالیہ انداز میں پوچھتے تھے کہ: میرا اور تمہارا رب کون؟ پھر خود ہی جواب تلقین کرتے کہ: اللہ ہی۔ عزت دینے والا کون؟ اللہ ہی۔ اولاد عطا کرنے والا کون؟ اللہ ہی۔ رزق دینے والا کون ؟ اللہ ہی۔ آپ فرماتے تھے کہ: توحید عین انصاف ہے اور شرک عین ظلم ہے۔
حضرت شاہ صاحب کی وفات سے چندماہ قبل محترم قاری سہیل احمدعباسی اورمعروف کالم نگارنویدمسعودہاشمی کے ہمراہ ان کے آستانے پرحاضری ہوئی توبیماری کی باوجود کئی گھٹنے ہمارے ساتھ انہوں نے گفتگوفرمائی جن میں سے چندباتیں ان کی اجازت سے میں نے روزنامہ اوصاف بھی انٹریوکے طورپرشائع کیں بہت سوں کوشاہ جی کی یہ باتیں اس وقت پسندنہ آئیں مگرحضرت شاہ جی نے یہ باتیں تنقیدکے طورپرنہیں بلکہ درددل کے طورپرکہیں تھیں اورشایدان کی زندگی کانچوڑتھا حضرت شاہ صاحب نے فرمایاکہ
مدارس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،دینی مدارس معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ مدارس میں صرف رٹا لگوایا جاتا ہے، ذہن سازی تو ہوتی ہے لیکن انسان سازی ناپید ہے۔ افسوس آج کل علما نہیں بلکہ علما نما لوگ تیار ہو رہے ہیں، علماء جیسی وضع قطع رہ گئی ہے، علماء ختم ہوچکے ہیں۔ جہاں علم ہوگا وہاں حلم، برداشت، تحمل ،عشق و سوز ہوگا۔آج سروں اورمیناروں کامقابلہ ہے (کس کے پاس طلباء زیادہ ہیں اورکس کے مدرسے کی عمارت بڑی ہے )ہمارے مدارس نے تو مسجدوں کے موذن اور مظلوم امام تیار کیے، ان میں کوئی بھی ابن تیمیہ، شاہ عبدالعزیز ،شاہ عبدالقادر ،عبدالرحمن جامی رحمھم اللہ تعالی جیسا کیوں پیدا نہیں ہو رہا؟انہوں نے فرمایاکہ مدارس روشن دماغ تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ اس دور میں روشن ضمیروں کی ضرورت ہے۔روشن دماغ کبھی گنگا اور کبھی جمنا میں وضو کرتے اور قبلے بدلتے رہتے ہیں، جبکہ روشن ضمیر لوگ ہی امید کی کرن ہوتے ہیں۔
مولانا سیدعبدالمجید ندیم شاہ انتہائی نفیس المزاج شخصیت کے مالک تھے شکل میں کشش اور رعب رکھتے تھے ،شروع میں قائداعظم والی کیپ،پہنتے تھے بعدازاں ٹوپی پر عمامہ سفید رنگ کا پہنناشروع کیا جو آخر تک پہنے رکھا۔شاہ صاحب نے تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک نظامِ مصطفی اور مختلف ادوار کی آمریت کے خاتمہ کی جدوجہد میں حصہ لیا۔وہ لکھتے ہیں کہ صدر ایوب خان اور یحیی خان کے دور میں قید و بند کے مراحل سے گزرا، بالخصوص یحیی خان کے مارشل لا میں ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں بیتے ہوئے لمحات یاد رہیں گے۔ جب جون، جولائی اور اگست کی گرمی میں ہم پھانسی پانے والوں کی کوٹھڑیوں میں بند گویا موت و زیست کی کشمکش میں وقت گزارتے تھے۔
ملک کے نامورخطباء اورعلماء مولاناعبدالمجیدندیم شاہ کے ہم عصرتھے ،جن میں مولانا عبدالستار تونسوی، مولانا عبدالشکور دین پوری، مولانا محمد ضیا القاسمی،علامہ احسان الہی ظہیر،علامہ حبیب الرحمن یزدانی ، مولانا قاری محمد حنیف ملتانی، مولانا محمد لقمان علی پوری، مولانا قاری محمد اجمل لاہوری، مولانا عبدالکریم شاہ ،مولانا سلیمان طارق، مولانا عبدالحئی عابد،سید شبیر حسین حافظ آبادی جیسے دیگر نامی گرامی خطباء شامل تھے مگر شاہ صاحب نے اپنے منفرد بیان اور قادر الکلامی سے علمی حلقوں اور عوامی جلسوں میں مقبولیت عامہ پر پہنچے اوراپنانام ومقام بنایا۔
مولاناعبدالمجیدندیم یوں تومحدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ کے شاگرد رشید، خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس سرہ کے مسترشد،، حضرت مولانا مفتی محمود قدس سرہ کے تربیت یافتہ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی مجلس شوری کے رکن، جمعیت علمائے اسلام کے رہنمائوں میں شمارہوتاتھا وہ اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی کے متعلق اپنی کتاب مقالات و خطابات میںلکھتے ہیں:
، والد محترم حضرت سید غلام سرور ابن سید غلام حیدر کا میں اکلوتا فرزند ہوں، جو حضرت سید حبیب سلطان کی اولاد میں سے ہیں، جن کا مرقد درگ ضلع لورالائی (کوہِ سلیمان) میں ہے۔ وہ ایک باخدا، روشن ضمیر اور عابد شب زندہ دار انسان تھے۔ قرآن پڑھنا پڑھانا ان کا وظیفہ حیات تھا۔ کوہِ سلیمانی کے دامن میں واقع دور افتادہ مقام پر چالیس سال سے زیادہ عرصہ انہوں نے ہزاروں قلوب و اذہان کو قرآنی انوار و تجلیات سے معمور کیا۔ بغیر کسی اجر و مشاہرہ کے توکل علی اللہ سینکڑوں مسافر طلبا ان کے حلقہ تعلیم و تربیت میں رہتے، جن کے قیام و طعام کے وہ کفیل تھے۔ قرآن کریم سے انہیں والہانہ عشق تھا اور وہ اس جذبہ سے سرشار ساری امیدیں اللہ سے وابستہ رکھتے، میں نے دنیا والوں سے استغنا کے جو مناظر ان کی زندگی میںد یکھے کہیں اور نظر نہیں آئے۔ طلبا کا کھانا ہمارے گھر ہی میں تیار ہوتا تھا۔
میں نے ہوش سنبھالا تو قرآنی زمزموں سے لبریز فضائوں نے خیر مقدم کیا۔ حضرت والد محترم ہی کے سایہ عاطفت میں قرآن پاک حفظ کرلیا، لکھنے پڑھنے کی صلاحیت کسی مکتب سے نہیں بلکہ جو طلبا استعداد رکھتے تھے انہی سے کچھ عرصہ رہنمائی حاصل کرتا رہا۔ اور فارسی نظم اور صرف کے ابتدائی مراحل مولانا عبدالحق صاحب فاضل دیوبند کے ہاں طے کیے۔ جو حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری ،حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی اور حضرت مولانا بدر عالم کے فیض یافتہ تلمیذ تھے ۔اس کے علاوہ مختلف دینی مدارس، ڈیرہ اسماعیل خان ،لاہور ،کراچی میں تعلیمی عرصہ گزارااور دورہ حدیث قاضی شمس الدین سے گوجرانوالہ میں پڑھا تکمیل وتخصیص کے آخری دوسال حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ہاں جامعہ العلوم الاسلامیہ بنور ی ٹان میں گزارے ۔
حضرت شاہ صاحب خطیب ہونے کے ساتھ بہترین ادیب بھی تھے انہوں نے کئی کتب بھی تصنیف کیں جن میں دیار غیر سے دیار حبیب تک ،نوائے درویش ،اسلام اور انسانیت اورخطبات ومقالات شامل ہیں، مردمومن کے حوالے سے ان کی ایک شاہکارتقریرہے جس میں انہوں نے قرآن پاک کی آیت ، ولا تھنوا ولا تحزنوا الخ کی تفسیرکرتے ہوئے فرمایاکہ باطل کی چیرہ دستیوں سے )نہ گھبرانہ خوف کھا کہ تم ہی سربلند ہو ،اگر تم صاحب ایمان ہو) ۔پھر فرمایا:یہی وہ بنیادی روح جو کامیابی کی کلید اور سربلندی کی نوید ہے کہ ایمان ویقین کے معیار پر پورے اترو،پھر دیکھو کہ تمہاری تدبیر اللہ کی تقدیر کا پرتو بن جائے گی ،تم اللہ سے اتنے قریب ہو جا کہ خود تقدیر تمہارے اشارہ ابرو کی منتظر ہو :
کافر کی یہ پہچان کہ آفا ق میں گم ہے
مومن کی یہ شان کہ گم اس میں ہیں آفاق
ہاں وہ مرد مومن ! جو پیکر خاکی ہو ،مگرا س کی پرواز آفاقی ہو ،وہ گفتار وکردار میں اللہ کی برہان ہو،قاری نظر آئے مگر حقیقت میں قرآن،وہ حلقہ یاران میں بریشم کی طرح نرم اوررزم حق وباطل میں مچلتاہوا طوفا ن ہو،وہ ہمسایہ جبرئیل امین ہو ،اس کی ٹھوکروں میں سمرقند وبخارا کی زمین ہو،وہ بے زر ہو مگر بالغ نظر ہو،وہ کار آشیاں بندی سے دور ،مگر احساس وخوئے وفا سے مخمور ہو۔،سوز صدیق، جلالت فاروق،حیا عثمان،وقوت حیدر کا بحرعمیق لگتا ہو،تدبر معاویہ وفقر بو ذرکا وارث نظر آئے ،وہ موت سے نہیں ،موت اس سے ڈرے ،زمانہ اس کونہیں وہ زمانے کو مسخرکرے۔
ہاں ہاں وہ مرد مومن ،جوخودی کے زور سے دنیاپر چھائے ،مقام رنگ وبوکا راز پائے ،برنگِ بحرساحل آشنا ہو ،مگر کف ساحل سے دامن کھینچتا چلاجائے ،اس کی جلوتوں میں مصطفائی مہکے،اس کی خلوتوں سے کبریائی ٹپکے،جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم ،دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان ،سکندری اس کی ٹھوکر میں ہو ،قلندری اس کے جوہر میں ہو،علم اس کا زیور ہو ،حلم اس کی چادر ہو، وفا اس کی اداہو ،رضا اس کی جزا ہو ،صداقت اس کا محمل ہو ،شہادت اس کی منزل ہو ،دانش اس کی بستی ہو ،عشق اس کی مستی ہو ،باہوش ایسا کہ شام وسحر کو سمجھے ،پرجوش ایسا کہ شمس وقمر کو لپکے،وہ حکمت کا لقمان ہو،بصیرت کا بلال وسلیمان ہو،وہ صاحب جذب دروں ہو۔
شریک زمرہ لا یحزنوں ہو، قلب حزیں رکھتا ہو،سوز یقین رکھتا ہو،گفتار دلبرانہ ،کردار قاہرانہ رکھتا ہو،نہ تاج وتخت میں نہ لشکر وسپا ہ میں ،جو بات قلند کی بارگاہ میں ہو،اس کی رعنائی فکر پہ روح الامین جھومے ،اس کی حرارتِ ذکر لوح وقلم کو چومے ،وہ کمال تشنگی میں بھی جگر کا خون پی لے ؛مگرکسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کرے ،وہ خلوتوں میں بھی ہو ،صف بہ صف بھی ،سربسجدہ بھی ،سربکف بھی ،نگاہ بلند ،سخن دلنواز، جاں پرسوز رکھتا ہو وہ قادر کا بندہ مگرتقدیر کا نمائندہ ہو، یہی ہے وہ مرد مومن جسے اللہ نے انتم الاعلون کی بشارت سنائی ہے ۔

متعلقہ خبریں