وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کیوں شریک نہیں ہوئے؟ترجمان پاک فوج نے وجہ بتادی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک )ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے پریس بریفنگ کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری کی تقریب میں عدم شرکت کی وجہ بتا دی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریب حلف برداری والے دن آرمی چیف کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی،اس دن وہ دفتر بھی نہیں آئے،طبعیت ناسازی کی وجہ سے وہ تقریب حلف برداری میں شریک نہیں ہو سکے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے فوج میں تقسیم کے سوال کے جواب میں کہا کہ فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں، آرمی چیف جس طرف دیکھتے ہیں پوری سات لاکھ فوج اُس طرف دیکھتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں،آرمی چیف کا عمران خان سے بہت اچھا تعلق تھا اور آج بھی بہت اچھا تعلق ہے۔عمران خان کے جلسے جلوسوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ جلسے اور ریلیاں نکالنا جمہوریت کا حصہ ہے، اگلے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کہ فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی،پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔ہم بار بار کہہ رہے ہیں فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ڈی مارش صرف سازش پر نہیں جاتا،اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔9 اپریل کی رات وزیراعظم سے آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس آئی کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عدالتیں آزاد ہیں اور آزادی سے فیصلے کرتی ہیں،اگر عدالتیں رات 12 بجے تک کھلی ہیں تو ان کا اپنا معاملہ ہے۔سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف چلنے والی مہم سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں ، ہم اس سے باہر رہنا چاہتے ہیں۔ نہ یہ کوشش پہلے کامیاب ہوئی نہ اب ہو گی، بہتر ہے کہ فیصلے قانون پر چھوڑ دیے جائیں۔ پراپیگنڈا مہم غیر قانونی،ملکی مفاد کے خلاف ہے۔بےبنیاد کردار کشی کسی صورت قبول نہیں،تعمیری تنقید مناسب ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر سے خفیہ خط سے متعلق قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں،کسی کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ آپشنز اسٹیبلمشنٹ کی طرف سے نہیں دئے گئے، وزیراعظم آفس کی جانب سے پیغام موصول ہوا تھا جس کے بعد 3 آپشنز پر بات چیت کی گئی۔ان کے ساتھ بیٹھ کر 3 آپشنز پر بات ہوئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرنے میں محتاط رہنا چاہئیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہ ایکسٹینشن مانگ رہے ہیں نہ لے رہے ہیں۔ آرمی چیف اپنی مدت پوری کرکے 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں،امریکا نے پاکستان سے فوجی اڈے نہیں مانگے اور مانگے جاتے تو وہی جواب ہوتا جو عمران خان نے دیا۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عمران خان کے دورہ روس میں فوج ہر طرح سے آن بورڈ تھی، سائفر جس دن آیا تو اسی دن آئی ایس آئی نے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔یہ ٹاپ سیکریٹ ڈاکیومینٹ ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی گئی اس کے محرکات تک پہنچ گئے ہیں۔مہم میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔جمہوریت کو مضبوط کرنا سب کا فرض ہے۔فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، پچھلے دنوں جو کچھ ہوا یہ آئین اور قانون کے تحت سیاسی عمل کا حصہ ہے۔

متعلقہ خبریں