قصور وار کون ؟؟ ۔۔۔ تحریر: نعیم ثاقب

ٹوکیو جاپان کا درالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کا مشہور اور مصروف ترین شہر بھی ہے یہاں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین مسافر زیر زمین تیز رفتار ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں 2017ءمیں ٹوکیو کی پولیس کو خواتین مسافروں کی طرف سے دوران سفر جسمانی چھیڑ چھاڑ(groping )اور جنسی ہراسگی کے تقریباﹰ 900 واقعات کی باقاعدہ شکایت کی گئی ۔ جاپانی ماہرین کے مطابق حقیقت میں ان واقعات کی سالانہ تعداد کہیں زیادہ تھی کیونکہ بہت سے خواتین نے پولیس کو ایسے واقعات کی اطلاع نہیں دی ۔ اس پر ٹوکیو پولیس نے متاثرہ خواتین کو تحفظ دینے اور ایسے مردوں کو نکیل ڈالنے کے لیے “ ڈیجی پولیس “ ایپ متعارف کروائی۔ ٹوکیو نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹس کے مطابق جب کسی خاتون کو ’گروپِنگ‘ کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو خاتون ایپ ایکٹیویٹ کر دیتی ہے۔اور فون سے احتجاجی لہجے بہت اونچی آواز میں یہ جملہ سنائی دیتا ہے: ’سٹاپ اِٹ‘ ! ۔ یا ایپ اسکے موبائل فون کی پوری اسکرین پر بڑا پیغام بھیج دیتی ہے جو متاثرہ خاتون فوراﹰ دیگر مسافروں کو دکھا کر مدد لے سکتی ہے۔ یہ طریقہ کار ’گروپِنگ‘ کے مرتکب افراد کو ڈرانے میں اتنا مؤثر ثابت ہو رہا ہے کہ اس ایپ کو اب تک ٹوکیو میں ایک ملین سے زائد خواتین اپنے اسمارٹ فونز پر ڈاؤن لوڈ کر چکی ہیں۔اور ماہانہ اوسطاﹰ مزید 10 ہزار خواتین یہ ایپ اپنے اپنے موبائل فونز پر انسٹال کر رہی ہیں۔ جب کوئی خاتون اس ایپ کو اپنے فون پر ایکٹیویٹ کرتی ہے، تو اس کے فون کی اسکرین پر دوسروں کے لیے یہ پیغام بھی لکھا ہوا نظر آتا ہے: یہ شخص مجھے تنگ کر رہا ہے، میری مدد کیجیے۔‘‘
یہ تو تھی جاپانی “ ڈیجی پولیس ایپ “کی بات ! اب پیش خدمت ہے دنیا کے دیگر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک سے groping کے حوالے کچھ تازہ خبریں !
۔۹ اگست گورنر نیویارک کے معاون کے خلاف خاتون کی جانب سے گروپنگ کی شکایت کی گئی ۔
۔گیارہ اگست ۲۰۲۱ کینیڈا کے شہر وینکور میں پولیس نے خواتین کے ساتھ(groping)دست درازی پر ہائی الرٹ جاری کیا۔یہ واقعہ سہ پہر ۴:۳۰ پر کریک فالس کے علاقے میں واک کرتی ہوئی دو گیارہ سالہ لڑکیوں کے ساتھ پیش آیا ۔
‎ولیمزبرگ ، بروکلین (ڈبلیو اے بی سی) – پولیس /بروکلین میں پرتشدد اور جنسی ہراسگی میں ملوث کو تلاش کر رہی ہے ۔اس شخص نے پندرہ اگست اتوار صبح ۲:۱۵ پر ایک چھبیس سالہ خاتون سے دست درازی کی ۔
-۱۸ اگست ۲۰۲۱ کو ساؤتھ ونڈسر میں ۱۷ سالہ لڑکی کے ساتھ جنسی چھیڑ چھاڑ کا واقعہ پیش آیا ۔
۔۳اگست کو فرنٹیر ایئرلائن میں ائر ھو سٹس کے ساتھ گروپنگ کا پولیس کیس بناآیا ۔
۔۲۶ جنوری کو انڈیا بڑھتے ھوئے واقعات کے پیش نظر بمبئی ہائی کورٹ نے کپڑے اتارے بغیر چھیڑ چھاڑ کو جنسی ہرسگی کے زمرے سے نکال نکال دیا ۔ جس پر پوری دنیا میں اس فیصلے پر تنقید ہوئی ۔
مارچ ۲۰۲۱ کو یو این ۔یوکے ویمن کی ایک تحقیق کے مطابق انگلینڈ میں 18-24 سال کی 97 فیصد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے ، جبکہ 96 فیصد نے اس کی شکایت اس لیے نہیں کی کہ انہیں یقین ھے اس سے کچھ نہیں بدلے گا۔
پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً سبھی ممالک کی خواتین ایسے ٹھرکی ،نفسیاتی مریضوں، جنسی درندوں اور ذہنی اوباشوں کے ہاتھوں جنسی ہراسگی کا شکار ہوتی رہتیں ہیں ۔ ایسے نفسیاتی بیمار جو خواتین کے جسم کو ہاتھ لگا کر لذت محسوس کرتے ہیں ہر معاشرے کے گلی محلوں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں ان بھیڑیوں کی حمایت میں نہ تو کوئی دلیل دی جاسکتی ہے نہ ہی کوئی توجیح پیش کرنی چاہیے ۔ گریٹر اقبال پارک میں لڑکی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا وہ قابل مذمت ہی نہیں قابل ندامت بھی ہے قصور واروں کو سزا ہر حال میں ملنی چاہیے ۔ لیکن سوشل میڈیا پر اس ایشو کو اچھالتے ہوئے ہم میں سے کسی نے یہ بھی سوچنے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ دنیا بھر میں ایسے واقعات ہونے کے باوجود صرف پاکستان میں ہی ان کو اتنا کیوں اچھالا جاتا ہے ۔ سمجھ لیں دشمن گھات لگائے بیٹھا ھے اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ ہم انجانے میں دشمن کے ہاتھوں اپنی ریاست ، اپنے وطن اور اپنے لوگوں کے خلاف استعمال ہورہے ہوتے ہیں ۔یہ ففتھ جنریشن وار کا ایک بڑا ہتھیار ہے جس میں اپنے ہی لوگوں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر ملک انتشار پیدا کیا جاتاھے ۔ اور ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ھے ۔ اور دوسری بات کیا کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث ذہنی مریضوں کی تربیت کا ذمہ دار اور قصور وار کون ہے ۔ والدین ، معاشرہ ، تعلیمی ادارے ، مریض خود ، بڑھتی ہوئی بے راہ روی ، حد سے زیادہ آزادی ، سال دو سال کی پوسٹنگ والا پولیس افسر یا نئی حکومت؟

متعلقہ خبریں