میں بہت سادہ آدمی ہوں اللہ مجھے معاف کرے،وعدہ کرتا ہوں عدالت میں حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کروں گا،شہباز شریف کا عدالت کو بیان

اسلام آباد ( آن لائن)چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ افراد کیس میں ریمارکس دیئے کہ شہریوں کو لاپتہ کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے،چیف ایگزیکٹو ذمہ دار ہے ،اس ملک میں کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں،یہ عدالت سول سپریمیسی کو آئین کی منشاء کو یقینی بنائے گی ،وزیر اعظم شہباز شریف نے معاملے کو حل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے بتایا کہ

لاپتہ شخص کے بیٹے سے ابھی ملاقات ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میرے ابو کو مجھ سے ملادیں،یہ جملہ مجھے بہت دکھی کرگیا ہے ،یہ بہت تکلیف دہ جملہ ہے ،ملک کی عدالتوں اور عوام کو جواب دہ ہوں ،مجھے اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے،کسی پر الزام تراشی نہیں کروں گا،ہم نے ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے ، ناقابل تردید ثبوت عدالت کے سامنے رکھوں گا، میں بہت سادہ آدمی ہوں اللہ مجھے معاف کرے،وعدہ کرتا ہوں عدالت میںحقائق پر مبنی رپورٹ پیش کروں گا۔عدالت نے اٹارنی جنرل کی جواب داخل کرانے کیلئے مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے مزید سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز سے قبل عدالتی عملے نے بتایا کہ چیف جسٹس کی عدالت میں آج صرف لاپتا افراد کیس کی سماعت ہوگی اور دیگر کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی۔کیس کی سماعت کے لیے لاپتا افراد کے لواحقین عدالت پہنچ گئے، لاپتا صحافی مدثر نارو کا کم سن بیٹا بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے جہاں شہباز شریف نے ان سے ملاقات کی،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو وزیر اعظم شہباز شریف، اٹارنی جنرل اور وزیر قانون روسٹرم پر آگئے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس ملک کے منتخب نمائندے اور چیف ایگزیکٹو ہیں، اس عدالت نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ کیوں کہ یہ بہت بڑا ایشو ہے، ریاست کو وہ رسپانس نہیں آرہا جو آنا چاہیے تھا۔ایک چیف ایگزیکٹو نے اس ملک میں 9 سال حکمرانی کی ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں فخریہ لکھا کہ اپنے لوگوں کو بیرون ملک فروخت کیا،

یہ عدالت تفتیشی ایجنسی نہیں ہے، بہت دفعہ عدالت نے یہ معاملہ فیڈرل کیبنٹ کو بھیجا، فیڈرل کیبنٹ کو کوئی ایسا رسپانس نہیں دیا جو آنا چاہیے تھا۔آپ نے ایک کمیٹی بنائی، یہ آئینی عدالت ہے، یہ معاملہ صرف کمیٹی کا نہیں، لاپتا افراد کے لیے کمیشن بنا، لاپتا افراد کی فیملی بیٹھی ہیں انہوں نے کمیشن کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں، ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ پوری ہونی چاہیے،

لوگ بازیاب ہوئے لیکن کبھی کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اس سے بڑا ایشو کوئی بھی نہیں۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس عدالت میں بلوچ طلبہ کے تحفظات سامنے آرہے ہیں، ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کو اٹھائیں، یہ تاثر ہماری نیشنل سکیورٹی کو متاثر کرتا ہے، سیاسی قیادت نے اس مسئلہ کو حل کرنا ہے، لوگوں کو لاپتا کرنا ٹارچر کی سب سے بڑی قسم ہے،

عدالت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ صرف ایگزیکٹو سے پوچھے، آپ سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہے ہیں اور اس ایشو کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں، اس ملک کی نیشنل سکیورٹی آپ وزیراعظم ہیں آپ کے ہاتھ میں ہے، اس عدالت کا آپ پر اعتماد ہے، آپ اس کا حل بتا دیں، ایک چھوٹا بچہ ادھر آتا ہے اس کو یہ عدالت کیا جواب دے،

اس وقت کے وزیراعظم سے بھی بچہ کی ملاقات ہوئی، یہ عدالت جبری گمشدگیاں کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے۔چیف جسٹس نے وزیر اعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ گورننس کے بہت مسائل ہیں اور وہ تب ہی ختم ہوں گے جب آئین بحال ہو گا، زیادہ تر قانون نافذ کرنے والے ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں۔شہباز شریف نے جواب دیا کہ مجھے جب آپ کا حکم ملا تو میں عدالت کے سامنے پیش ہو گیا،

آپ نے بہت اہم آبزرویشنز دی ہیں، میں کوئی عذر پیش نہیں کروں گا، بچہ نے کہا وزیراعظم میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں، یہ جملہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے، میں یقین دلاتا ہوں میں پوری کوشش کروں گا، میں اس ملک کی عدالتوں کو جوابدہ ہوں، مجھے جا کر اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے،

میں یہاں الزام تراشی والی گیم کھیلنے نہیں آیا۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم نے ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے اور اس کی 6 میٹنگز ہو چکی ہیں، میں اپنے عوام کو بھی جوابدہ ہوں، ناقابل تردید ثبوت عدالت کے سامنے رکھوں گا، حقائق خود بولتے ہیں، میں بہت سادہ آدمی ہوں اللہ مجھے معاف کرے، لاپتا افراد کمیٹی 6 اجلاس کرچکی، لاپتا افراد کمیٹی کے ہر اجلاس کی نگرانی کروں گا اور عدالت میں رپورٹ پیش کروں گا،

رپورٹ کوئی کہانی نہیں ہوگی، بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ 4 سالوں میں 2 مرتبہ جیل گیا، میرے اہلخانہ نے بھی اذیت دیکھی، میں نے بطور وزیر اعلی پنجاب اپنا خون پسینہ بہایا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے، ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ‘آپ آئین کا آرٹیکل 7 پڑھیں’، اٹارنی جنرل نے آئین کا آرٹیکل 7 پڑھ کر سنایا، جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اب بتائیں لاپتا افراد کا ذمہ دار کون ہے، اسلام آباد سے دو بھائی غائب ہوئے آج تک ان کا پتا نہیں چلا۔ کمیٹیاں بنتی رہی یقین دہانی کرائی جاتی رہی لیکن کوئی کام نہیں ہوا۔وزیر اعظم نے کہا کہ میں یہ تو نہیں کہتا سارے لاپتا افراد بازیاب ہوں گے

لیکن کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، ڈکٹیٹر کی پالیسیوں کا میں اور میرا بھائی بھی نشانہ بنا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سابق سربراہ نے تسلیم کیا کہ شہریوں کو لاپتا کرنا ریاستی پالیسی تھی، آئین کے مطابق کوئی بھی شہری لاپتا ہو تو ریاست ذمہ دار ہوتی ہے۔وزیراعظم نے جواب دیا کہ اس چیف ایگزیکٹو کے دور میں ہمیں ملک بدری میں رہنا پڑا، یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کو لاپتا کرنا آئین توڑنے کے مترادف ہے، آپ کو اس لیے بلایا کہ ریاست سمجھ سکے کتنا بڑا ایشو ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ جب میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھا تو ہر زبان والے طلبہ کو پنجاب میں داخلے دیے، بلوچ، پشتون، سندھی پنجابی سب طلبہ کو دانش سکولز میں مفت داخلے دلوائے، بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی سارے پاکستانی ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت پارلیمنٹ کا بہت احترام کرتی ہے، تمام صوبوں کے چیف ایگزیکٹو بھی ذمہ دار ہیں اگر ان کے علاقے سے کوئی اٹھایا جاتا ہے، اس عدالت کے فیصلے سے پہلے ایگزیکٹو نے اس بات کو یقینی بنانا ہوگی کہ کوئی لاپتا افراد نہیں ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن کے متعلق بہت کچھ بتایا، کمیشن لاپتا افراد کے لواحقین پر مرہم رکھنے کے بجائے

انکو اذیت دیتے رہے، جنھوں نے آئین کی خلاف ورزی کی انکے خلاف کارروائی ہونی چائیے، معاملات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں ان پر قانون سازی کریں، بھارت نے یہی کیا، دیگر ممالک نے یہی کیا۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو لاپتا کرنا ناقابل برداشت ہے، عدالت چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائے گی، اس ملک میں کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں، یہ عدالت سول سپریمیسی کی آئین کی منشا کو یقینی بنائے گی۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم سے استفسار کیا کہ جبری گمشدگیوں پر سیکیورٹی کونسل کے ہر رکن کو عدالت ذمہ دار ٹھہرائے؟ لاپتا افراد کے پرانے کیسز پر لواحقین کو مطمئن کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، آئندہ کسی شخص کو لاپتا نہیں ہونا چاہیے، تلاش کرنا عدالت کا نہیں ریاست کا کام ہے،

ریاست کے پاس ایجنسیز ہیں، دیگر ذرائع ہیں، جائیں اور تلاش کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سول بالادستی اور اداروں پر حکومت کا کنٹرول آئین کے مطابق ہونا چاہیے، وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھایا گیا جس کی ویڈیوز موجود ہیں، یہ عدالت کیسے مان لے کہ ریاست اتنی کمزور ہے کہ اس کی تحقیقات نہ کر سکے، ایس ای سی پی کے ایک افسر کو اٹھایا گیا اس نے واپس آ کر کہا کہ

شمالی علاقہ جات کی سیر کو گیا تھا۔اس موقع پر مدثر نارو کی والدہ نے کہا کہ ہم فروری 2019 میں دھرنے پر بیٹھے تھے، رانا ثنا اللہ صاحب ہمارے فیصل آباد کے ہیں ان کو کافی اپیلیں کی ہیں، ہم آرمی کی عزت کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلیں بھی عزت ہی کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کسی شہری کو شک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ان کو کون اٹھاتا ہے، وزیراعظم صاحب یہ نیشنل سیکیورٹی کا ایشو ہے،

ریاست کے اندر ریاست نہیں ہے نا یہ عدالت مانتی ہے، آئین سپریم ہے اور اس پر عمل ہو گا۔اس دوران وزیر قانون نے عدالت کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یو این سیکریٹری جنرل کو وزیراعظم سے ملنے ساڑھے 10 بجے آنا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ کا شکریہ کہ آپ آئے، جبری گمشدگیوں کو ختم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے وزیراعظم شہباز شریف کو جانے کی اجازت دے دی۔سماعت کو آگے بڑھاتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہر حکمران ذمہ دار ہے، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اور اس کے بعد ایک فیصلہ دے گی۔انہوں نے اٹارنی جنرل اشترت اوصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ تیار ہیں تو آج دلائل دیں پھر عدالت ایک فیصلہ دے،

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں کیا کر سکتا ہوں، یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ میرے پاس تو اختیار ہی نہیں اختیار تو کسی اور کے پاس ہے، اگر آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے تو پھر اپنا آفس چھوڑ دیں۔اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے جواب دیا کہ دلائل وہاں دیے جاتے ہیں جب اختلاف ہو، میں نے، وزیر قانون اور وزیر داخلہ نے اس معاملے پر بہت سنجیدگی سے مشاورت کی ہے،

میں نے اس عدالت سے جا کر اس عدالت کی بنائی کمیٹی کے ارکان کو فون کر کے بات کی، میں نے اسد عمر کو بھی کال کی، صرف چیئرمین سینیٹ سے رابطہ نہیں ہوا، ان سے ذاتی طور پر ملنے جاؤں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے وزیراعظم کی ذمہ داری لگائی ہے، ہم کام کریں گے،

آپ ہمیں تھوڑا موقع دیں پھر آپ کو شکایت نہیں ہو گی، اگر ہم ذمہ داری پوری نہ کر سکے تو میں آ کر کہوں گا کہ میں ناکام ہو گیا۔اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ متحدہ حکومت ہے اور حکومت کے اتحادیوں کا یہ اپنا مسئلہ ہے، اس حکومت نے اس لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ معاملے کی گہرائی تک پہنچ سکیں، پرامید ہوں کہ ہم کسی منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں 2 ماہ کا وقت چاہیے، یہ کام 2 دن میں نہیں ہو سکتا، اس عدالت کی نگرانی موجود رہے تو شاید ہم کسی حل کو پہنچ جائیں گے، جب یہ کیس چل رہا ہے تو ہمیں بھی احساس ہے کہ یہاں جواب دینا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ایک فیصلہ دینا چاہتی ہے، وہ ان مسائل کے حل میں فائدہ دے گا۔وزیر قانون نے جواب دیا کہ یہ عدالت سول بالادستی کے بعد

سب سے زیادہ تکریم پارلیمنٹ کو دیتی ہے، ورنہ جتنی بے توقیری پارلیمنٹ کی ہوئی کسی ادارے کی نہیں ہوئی، پارلیمنٹ کو تالے لگائے گئے، پارلیمنٹ کے ممبران نے بھی جو اس کے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہیں، یہاں پر جگہ جگہ بارودی سرنگیں ہیں ان کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔دوران سماعت فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمان نے اپنا کام 2015 میں مکمل کر لیا تھا، پارلیمان کا خیال تھا کہ

اس کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیز ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا انٹیلی جنس ایجنسیز کس کے ماتحت ہیں؟ کوئی چیف ایگزیکٹو خود کو بے بس ہونے کا بہانہ نہیں بنا سکتا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس عدالت میں چیزیں خراب ہو رہی ہیں لیکن رجسٹرار ذمہ دار ہے،

اگر آپ یہ جواز دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے۔ اگر کوئی جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کو جاری رکھے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں مجبور ہوں، اگر کوئی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا اور سمجھتا ہے کہ وہ مجبور ہے تو وہ اسکا ذمہ دار ہے، اگر چیف ایگزیکٹو کہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں میرے ماتحت نہیں تو وہ آئین سے انحراف تسلیم کرتا ہے،

جو چیف ایگزیکٹو یہ تسلیم کر لے اس کو پھر عہدہ چھوڑ کر گھر جانا چاہیے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمان نے 2015 میں قانون بنا کر ایگزیکٹو کو بھیج دیا تھا، ایگزیکٹو کا کام تھا اسے نافذ کرتا یا مکالمہ کرتا آ کر کہ کیوں نہیں ہو سکتا، چیف ایگزیکٹو پارلیمان کو ہی جوابدہ ہے، کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمان عملدرآمد نہیں کروا پائی؟ پارلیمان اتنی مضبوط ہے کہ وہ وزیراعظم کو بھی ہٹا سکتی ہے،

عدالت یہ بات کہہ کر پارلیمان کی بیتوقیری نہیں کرنے دے گی۔وزیر قانون نے کہا کہ حقائق ذرا مختلف ہیں، جو کچھ ہم نے دیکھا اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں لگتا ہے کہ مزید قانون سازی کی بھی ضرورت ہے، 2 سے 8 ہفتے کا وقت دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایسا فورم ان کو بتا دیں جو مسنگ پرسنز کے لواحقین کے لئے ہر وقت دستیاب ہو، یہ ایک دوسرے پر الزامات کا نہیں بلکہ

خود احتسابی کا وقت ہے۔دوران سماعت آمنہ مسعود جنجوعہ نے وزیر داخلہ سے چیئرمین لاپتا افراد کمیشن جاوید اقبال کو ہٹانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن میں کوئی جانے کو تیار نہیں، اس کا کچھ کریں۔وزیر قانون نے کہا کہ ہمارے بہت سارے اداروں نے بہت قربانیاں دی ہیں،

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس وقت کی آپ بات کر رہے ہیں اس وقت پنجاب تو پھر بہتر تھا لیکن خیبرپختونخوا میں روزانہ دھماکے ہوتے تھے۔وزیر قانون نے جواب دیا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں لا ریفارمز لانے ہیں، ہمیں 8 سے 10 ہفتے دے تاکہ ہم اس پر کام مکمل کرلیں۔درخواست گزاروں کی اجازت پر عدالت نے وزیر قانون کو 2 ماہ کا وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی۔

متعلقہ خبریں