پی ٹی آئی کو بلے کا نشان ملے گا یا نہیں؟ سپریم کورٹ میں فیصلہ کچھ دیر بعد

اسلام آباد(نیوزڈیسک)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے نشان کے معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت مکمل ہو گئی ہے جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جو کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی، بینچ ممبران میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو شاید انٹرا پارٹی انتخابات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔
حامد خان کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن ادارہ ہے متاثرہ فریق کیسے ہوسکتا ہے، یہ اپیل ناقابل سماعت ہے اسے خارج کیا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 185 میں اپیل دائر کرنے کے لیے متاثرہ فریق کا ذکر موجود ہے؟ جس کے جواب میں حامد خان نے کہا کہ اپیل کے لیے متاثرہ فریق کا لفظ موجود نہیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہائیکورٹ الیکشن کمیشن کو تحلیل کردے تو کیا ادارہ اپیل نہیں کر سکے گا؟ کمیشن کے کسی رکن کو ہٹایا جائے تو کیا کمیشن اپیل نہیں کر سکتا؟۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ معاملہ اگر کسی رکن کی تعیناتی غیرقانونی ہونے کا ہو تو الگ بات ہے۔
حامد خان نے کہاکہ معلومات تک رسائی کے متعلق فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عدالت درخواست گزار نہیں ہوسکتی۔ حامد خان نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی درخواست بھی کی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ دلائل مکمل کریں ہم فیصلہ دیں گے۔
انٹراپارٹی انتخابات اندرونی معاملہ ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا، حامد خان
چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔ جس پر حامد خان نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے بااختیار ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، اختیارات مختلف حالات کے مطابق دیے گئے ہیں۔

حامد خان نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کےساتھ دُہرا معیار اپنایا، الیکشن کمیشن نے کسی دوسری جماعت کے انتخابات کی اس طرح اسکروٹنی نہیں کی۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ جن کی اسکروٹنی نہیں ہوئی انہیں فریق بناتے اور الگ الگ کیس کرتے۔
حامد خان نے مزید کہاکہ انٹراپارٹی انتخابات اندرونی معاملہ ہے الیکشن کمیشن جائزہ نہیں لے سکتا۔
آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اکبر ایس بابر پارٹی کے ممبر نہیں ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اکبر ایس بابر پارٹی کے ممبر نہیں ہیں؟، وہ شوکاز دکھا دیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا بانی رکن ہے پھر آپ کہتے ہیں نہیں ہے۔ اب ان کو پارٹی ممبر نہ ثابت کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔
اس پر حامد خان بولے یہ معاملہ آپ کے سامنے ہے ہی نہیں۔ جس کے جواب میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ یہ معاملہ ہمارے سامنے ہے، آپ نے اپنی پٹیشن میں کہا ہے کہ وہ پارٹی رکن نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ فوزیہ قصوری صاحبہ ہیں یا چلی گئی ہیں؟، کم از کم بانی اراکین کو تو عزت دیں۔
حامد خان نے دلائل دیے کہ پارٹی اگر کسی کو ممبر نہ مانے تو اس کا کام ہے خود کو عدالت میں رکن ثابت کرے۔ مقبول سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کرنے سے ووٹرز کے حقوق متاثر ہوں گے۔
انٹراپارٹی انتخابات چیلنج کرنے والے کارکنان روسٹرم پر آ گئے
حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات چیلنج کرنے والے پی ٹی آئی ارکان روسٹرم پر آ گئے۔
محمود احمد خان نے کہاکہ میں 2006 سے پارٹی کا ممبر ہوں جب دوحہ قطر میں تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اب کس پارٹی میں ہیں؟ جس کے جواب میں محمود احمد خان نے کہاکہ میں پی ٹی آئی میں ہوں اور رہوں گا۔
چیف جسٹس کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ میں الیکشن لڑنا چاہتا تھا لیکن بتایا ہی نہیں گیا کون کون سی سیٹوں پر الیکشن ہو رہے ہیں۔ اگر پارٹی میں جمہوریت نہیں ہو گی تو ملک میں جمہورت کیسے ہوگی۔
مجھے کہا گیا یہ ایسے ہی الیکشن ہونے ہیں، نورین خان
اس موقع پر پی ٹی آئی کی ایک اور کارکن نورین خان بھی روسٹرم پر آ گئیں۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ان سے پوچھا کہ آپ کس عہدے پر رہی ہیں؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں کافی عہدوں پر رہی ہوں۔ میں نعیم الحق کی اسسٹنٹ بھی رہی ہوں۔چیف جسٹس کے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ میں الیکشن لڑنا چاہتی تھی۔ آفس کال کے پوچھا تو کہا گیا کہ یہ ایسے ہی الیکشن ہو رہے ہیں۔
ایک اور رکن بلال اظہر رانا نے کہاکہ میں 1996 سے پارٹی کا ممبر ہوں۔ میں نے کبھی کوئی عہدہ نہیں رکھا۔ مگر میں الیکشن لڑنا چاہتا تھا۔

مجھے کہا گیا جس کا عمران خان کہیں گے وہی عہدیدار بنے گا، مزمل سندھ
اس موقع پر محمد مزمل سندھو نامی رکن بھی سامنے آ گئے اور کہاکہ میں نے 2016 میں پی ٹی آئی جوائن کی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی آپ کون سی پارٹی میں ہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں پی ٹی آئی میں ہوں اور الیکشن لڑنا چاہتا تھا۔
مزمل سندھو نے کہاکہ میں پارٹی آفس گیا تھا مگر کہا گیا کہ جس کا عمران خان کہیں گے وہی عہدیدار بنے گا۔
اکبر ایس بابر کے وکیل کے دلائل
پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی کا 1999 کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے۔ پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں۔
احمد حسن نے دلائل دیے کہ آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان صرف ابھی موجود ہیں، بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر ایس بابر بھی شامل ہیں۔
احمد حسن نے کہاکہ پی ٹی آئی کا بلے سے قبل انتخابی نشان چراغ ہوتا تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی کے دلائل
اس کے بعد جب الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی کے دلائل شروع ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ کسی کو جرمانہ کر رہے ہیں، کسی کو کہہ رہے ہیں بعد میں الیکشن کرا لیں۔ آپ پر امتیازی سلوک کا الزام ہے۔
مخدوم علی خان نے کہاکہ کل تک کی پوزیشن یہ ہے کہ 13 جماعتوں کو ڈی لسٹ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عوامی نیشنل پارٹی کو آپ نے کہا الیکشن بعد میں کرا دیں۔ جس کے جواب میں مخدوم علی خان نے کہاکہ ان کے انتخابات کو 5 سال نہیں ہوئے تھے اس لیے ان کا وقت بڑھایا گیا۔
بینچ ممبر جسٹر مسرت ہلالی بولیں اے این پی کو شاید لا اینڈ آرڈر کی وجہ سے 10 مئی تک کا وقت دیا ہے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ اے این پی کو مہلت 5 سال کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کے دلائل
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کے لیے اخبار میں شائع کیا گیا تھا، اخبار میں بتایا گیا تھا کہ آج پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پشاورمیں ہو رہے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین کے لیے بھی پینل نہیں ہوتا؟ علی ظفر بولے کہ نہیں وہ اکیلے الیکشن لڑتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایک شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا، کہیں لکھا ہوا ہے؟ علی ظفر نے کہا کہ ایک شخص نہیں لڑ سکتا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ چیئرمین کے انتخابات کے لیے بھی پینل ہونا لازمی ہے؟ چیئرمین کا الیکشن کہاں ہوا تھا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ چیئرمین کے لیے پینل کا ہونا لازمی نہیں، وہ اکیلے لڑ سکتا ہے۔ چیئرمین کا الیکشن بھی پشاور میں ہی ہوا تھا۔
سارے مسئلے آپ ہی کی پارٹی کو کیوں ہو رہے ہیں؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لوگ آج ایک پارٹی، کل دوسری میں ہوتے ہیں بہت کم لوگ اپنی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ علی ظفر بولے اسد عمر کو حراست میں لیا گیا جس کے بعد وہ میڈیا پر آئے اور کہا کہ میں استعفیٰ دے رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد عمر نے اپنے استعفیٰ میں لکھا ہے کہ وہ پارٹی کیوں چھوڑ رہے ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ 9 مئی کی وجہ سے پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ سارے مسئلے آپ ہی کی پارٹی کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اگر ٹرائل کورٹ بننا ہے تو ہمیں دفاع کا پورا حق دیا جائے۔
لیکن الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے کہ انہوں نے 13 دیگر پارٹیوں کو بھی نوٹس دیے ہیں چیف جسٹس
وکیل علی ظفر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد شکایت کنندگان بھی لاہور ہائیکورٹ میں فریق نہیں تھے، چیف جسٹس بولے کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کے پاس دائرہ اختیار نہیں تھا؟ وکیل علی ظفر بولے کہ کوئی زبردستی نہیں کر سکتا کہ کس عدالت سے رجوع کرنا ہے کس سے نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر لاہور ہائیکورٹ پی ٹی آئی کا سابقہ الیکشن درست قرار دیدے تو کیا ہوگا؟ وکی علی ظفر نے کہا کہ عمران خان دوبارہ چیئرمین بن جائیں تو ہم سے زیادہ خوش کوئی نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ہٹانے کا نوٹس جاری کیا تھا اس وجہ سے چئیرمین تبدیل کیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن چیئرمین کو ہٹا سکتا ہے؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس چیلنج کر رکھا ہے، جسٹس مسرت ہلالی بولیں کہ عمران خان ازخود بحال ہوجائیں گے یا چیئرمین کا دوبارہ الیکشن ہوگا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کے مستعفی ہونے پر چیئرمین کا الیکشن دوبارہ ہوگا۔ الیکشن کمیشن نے 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے پارٹی انتخابات کالعدم نہیں کیے۔ ہمایوں اختر کیس میں الیکشن کمیشن نے قرار دیا پارٹی انتخابات کیس میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ 2009 کا ہے، کیا اس وقت اور ان کے قانون میں فرق نہیں ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ قانون میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے 2002 کے آرڈیننس کے تحت ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ نئے قانون میں بھی دفعات وہی ہیں۔ ق لیگ میں بھی پارٹی انتخابات درست نہ ہونے کا سوال تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو چیمبر میں بلا لیا، اور سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر لیا۔
آپ تو ڈکٹیٹرشپ کی طرف جا رہے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے، آپ ڈکٹیٹرشپ کی طرف جا رہے ہیں ایک آدمی کہہ دے یہ پینل وہ پینل، یہ جمہوریت تو نہ ہوئی۔ سیکرٹری جنرل بھی ایسے ہی آگئے، چیئرمین بھی ایسے ہی آگئے، بورڈ بھی ایسے ہی آ گیا، یہ الیکشن ہے یا سلیکشن یا کیا ہے؟ آپ کیوں نہیں الیکشن کرواتے، مسئلہ کیا تھا۔
علی ظفر نے جواب دیا کہ مسلم لیگ نواز میں نواز شریف، مریم نواز بلا مقابلہ منتخب ہوئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بڑی بڑی ہستیاں تو بلا مقابلہ آجاتی ہیں لیکن آپ کے تو چھوٹے سے چھوٹا عہدیدار بھی بلا مقابلہ منتخب ہوا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اے این پی کو بھی کوئی 20 ہزار کا جرمانہ ہوا ہے، علی ظفر نے جواب دیا کہ جی آج ہی فیصلہ آیا ہے 20 ہزار جرمانہ کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی انتخابات کروائیں۔ چیف جسٹس بولے کہ لیکن آپ کا مسئلہ تو کافی پرانا چل رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کل کو گوہر صاحب وزیراعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو کیا آپ کی پارٹی میں لوگ جانتے ہیں کہ یہ کیا کریں گے؟ علی ظفر بولے کہ ہم الیکشن کرانا چاہتے تھے اور ہم نے مرکز اور صوبوں کے لیے الگ الگ رنگ کے بیلٹ پیپرز بھی بنائے تھے۔ پینل بھی بنائے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب ایسا ہوا نہیں تو اس کا مطلب ہے الیکشن ہوا ہی نہیں۔
لوگ مسئلے خود حل نہیں کرتے پھر عدالتوں میں آ جاتے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کا آپ کے ساتھ سے معاملہ چل رہا ہے جب آپ کی اپنی حکومت تھی، لوگ مسئلے خود حل نہیں کرتے پھر عدالتوں میں آ جاتے ہیں۔ اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو مسئلے نہیں ہوتے۔ ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اکبر ایس بابر صاحب پارٹی کے بانی رکن ہیں اب ان کو نکالنے کا ثبوت دکھا دیں۔ ازراہ تفنن پوچھ رہے ہیں کہ حامد خان کا پارٹی چیئرمین بننے کا زیادہ حق تھا کہ بیرسٹر گوہر کا؟
جسٹس مسرت ہلالی نے بھی استفسار کیا کہ حامد خان صاحب کو آفر ہوئی تھی، چیف جسٹس دوبارہ بولے کہ اگر ایک ووٹ بھی نہ ڈلے تو سینیٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میں بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوا تھا، اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے، ملک چلانے والے کون ہوتے ہیں عوام کو پتا ہونا چاہیے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آپ اختلافی نقطہ نظر بھی سنتے ہیں جو اچھی بات ہے، چیف جسٹس بولے آپ ہمیشہ پروفیشنل انداز میں دلائل دیتے ہیں۔
’بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوسکتا ہے کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔‘
آپ ایک پارٹی کو 217 نشستوں سے محروم کر رہے ہیں، وکیل علی ظفر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ انتخابات میں کسی نے ووٹ نہیں ڈالا، علی ظفر بولے مدمقابل کوئی نہیں تھا اس لیے ووٹنگ نہیں ہوئی تھی، چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ کرونا کے دوران بھی انتخابات ہوسکتے تھے، اگر کوئی پینل نہ سامنے آتا تو ایسے ہی بلامقابلہ الیکشن ہوجاتے۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ ماضی کو واپس کیا جا سکتا تو ضرور کر دیتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 2021 میں انتخابی نشان واپس لینے کا خط لکھا تھا، پرانے لوگوں کو ساتھ رکھیں تو انہیں تجربہ ہوتا ہے، اکبر ایس بابر کی دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کے بارہ بانی ارکان تھے، پی ٹی آئی نے شاید بعد میں آئین بدل لیا۔
علی ظفر نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت صرف انتخابی نشان کی موجودگی میں مخصوص نشستوں کے لیے اپلائی کر سکتی ہے، پورے پاکستان میں 217 مخصوص نشستیں ہیں۔ ایک ہی جھٹکے میں آپ ایک پارٹی کو 217 نشستوں سے محروم کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کوئی پارٹی اگر کہے کہ مجھے انتخابی نشان کے بغیر انتخاب نہیں لڑ سکتی؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں لڑ سکتی۔ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کے جائزے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ کیا الیکشن کمیشن کو فنڈنگ کا جائزہ لینے کا بھی اختیار نہیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ فنڈنگ کا معاملہ مختلف ہے اس کی سکروٹنی الیکشن کمیشن کر سکتا ہے۔
کوئی بھی نشان دے دیں، بغیر نشان کے پارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتی، بیرسٹر علی ظفر
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سکروٹنی کا اختیار الیکشن کمشین کو آئین نہیں قانون میں دیا گیا ہے، اس نکتے پر آپ کیوں نہیں کہتے کہ سول کورٹ کا اختیار ہے، علی ظفر بولے فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے الیکشن ایکٹ بالکل واضح ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کے اپنے چیئرمین کا بیان ہے کئی بار اخباروں میں آچکا ہے کہ کوئی بھی انتخابی نشان دے دیں۔ علی ظفر بولے جی کوئی بھی دیں۔ کیونکہ کوئی بھی جماعت انتخابی نشان کے بغیر انتخاب نہیں لڑسکتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ اپنا زمانہ یاد کریں کہ آپ نے ایک پارٹی ہیڈ کو فارغ کیا اور کوئی صاحب اپنا بندہ لے آئے، بیرسٹر گوہر نے عدالت میں بیان دیا کہ میرے گھر چار ڈالے گئے ہیں، میرے بھتیجے کو مارا ہے، سارے کاغذات لے گئے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو ہدایت کی چوہدری صاحب ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ بیرسٹر گوہر کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سے صرف کہا گیا کہ الیکشن کروا لیں، آپ نے انتخابی نشان کی جنگ چھیڑ دی۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا ہے اور وہاں سے روانہ ہو گئے۔بیرسٹر گوہر عدالت میں واپس آئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کیا کہ گوہر صاحب کیا پوزیشن ہے؟ بیرسٹر گوہر بولے کہ حالات بہت سنگین ہیں، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ابھی معاملے کو طے کریں۔
بیرسٹر گوہر بولے 4 ڈالوں میں لوگ میرے گھر آئے، کسی پر اعتماد نہیں ہے عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سے بات ہوئی ہے، سیکریٹری داخلہ اور آئی جی معلوم کر رہے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر گوہر کو بات کرنے سے روک دیا۔ اور کہا کہ پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بتائیں اگر بات نہ سنی جائے تو عدالت کو آگاہ کریں۔بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ اب تو حد سے بھی تجاوز ہوگیا ہے، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم ایس ایچ او تو نہیں ہیں۔
بیرسٹر گوہر اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کمرہ عدالت نمبر 1 کے باہر مکالمہ
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے بات کی ہے وہ آئی جی اور دیگر لوگوں کو فون کر رہے ہیں، بیرسٹر گوہر نے گھر کی موبائل فوٹیجز ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو دیکھائیں، اور کہا کہ انہوں نے گھر پر چھاپہ مارا ہے کمپیوٹر سب کچھ اٹھا کر لے گئے ہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل دوبارہ اٹارنی جنرل آفس کی طرف روانہ ہوگئے۔
سماعت میں وقفے سے پہلے کا احوال
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان، پی ٹی آئی کے وکلاء حامد خان، علی ظفر اور نیاز اللہ نیازی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سماعت شروع ہوتے ہی استفسار کیا کہ 2 سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں؟
وکیل علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا، آرٹیکل 17 دو طرح کی سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں ان سوالوں کا جائزہ لینا ہے، آیا الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا؟ بنیادی معاملہ ایک سیاسی جماعت کے سول حقوق کا ہے، اور آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت فیئر ٹرائل کے حق کا بھی معاملہ ہے، پی ٹی آئی شہریوں کی نجی جماعت ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو درخواست دائر کرنے کا اختیار تھا؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابی قوانین کی تشریح کر سکتا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے۔ الیکشن کمشین عدالت نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کیے، وکیل علی ظفر
’الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کیساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا، بنیادی سوال سیاسی جماعت اور اسکے ارکان ہے اس لیے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل کا حق دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کیے۔ انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہوسکتے تھے۔ الیکشن کمیشن کے پاس سوموٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی‘۔
بیرسٹر علی طفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لیے عملدرآمد کیا۔

وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2 دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، الیکشن کمشین میں پارٹی انتخابات کیخلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا۔
’الیکشن کمیشن کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لیے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دینگے‘۔
پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے آٹھ لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس
وکیل علی ظفر نے کہا کہ کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، چیف جسٹس بولے کہ جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت تو تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفی دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے وہ پی ٹی آئی آئین سے ہی کی ہیں، وکیل علی ظفر بولے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈیول اور مقام پر کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں، اکبر بابر کو الیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ یہ عہدیدار کون ہیں تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے آٹھ لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے جن بے ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اسکی نشاندہی کر رہا ہوں، جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ بنیادی نکتہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہو جائیں گی، چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقے کار سے کرائے ہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انتخابات کی پیچیدگیوں میں نا جائیں، بس اتنا بتا دیں کہ کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام پارٹی اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکڑا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔
تمام سوالات کے جوابات دستاویزات کے ساتھ دوں گا، علی ظفر
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟
’کیا انتخابات شفاف تھے، کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی‘۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی۔ چیف جسٹس بولے کہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے۔ مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، اسٹبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اصل نام فوج ہے۔
آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے، چیف جسٹس کے ریمارکس
وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے، جسٹس مسرت ہلالی بولیں کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے، علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی سکروٹنی کا اختیار نہیں ہے، اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔
اگر الیکشن نہ کروائیں تو صرف جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے، علی ظفر
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر الیکشن نہ کروائیں تو صرف جرمانہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے بولے کہ آپ کہتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ جرمانہ کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی آپ کہتے ہیں باقی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں، الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو۔ بیرسٹر علی ظفر بولے کہ پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے مانے نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں نہیں لڑنے دیا۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یا تو کہہ دیں کہ جمہوریت گھر میں نہیں چاہیے لیکن باہر چاہیے، ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ کوئی پٹواری انٹراپارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ علی ظفر صاحب پارٹیوں میں بڑے امیدواروں اور بڑی پوسٹوں پہ تو لوگ الیکشن نہیں کرتے لیکن چھوٹی پوسٹوں پہ تو لوگوں کو الیکشن لڑنے دیں، عام انتخابات میں شاید دو تین فیصد لوگ بلا مقابلہ منتخب ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی پوسٹوں پر بھی مقابلہ ہوتا ہے۔ اگر 326 لوگ بلا مقابلہ منتخب ہوکے آجاتے ہیں تو میں تو اس الیکشن کو نہیں مانتا۔
یہ جمہوریت نہیں، آمریت ہے: چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ہر پارٹی میں ایک بڑا لیڈر ہوتا ہے عمران خان صاحب جس پینل کو کہیں کہ یہ میرا پینل ہے تو لوگ اس کے خلاف مقابلہ نہیں کرتے، چیف جسٹس نے بولے پھر یہ جمہوریت نہیں، آمریت ہے، سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لے کر آئیں۔ اگر 8 فروری کو آپ 326 ارکان کو بلا مقابلہ جتوا دیں تو ایسے الیکشن کو میں نہیں مانوں گا۔
وکیل علی ظفر بولے کہ ویب سائٹ پر سارے ممبران کی فہرست نہیں، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم ویب سائٹ کو نہیں مانیں گے، جب آپ کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والے 14 ارکان ممبر تھے تو پھر ہم اگلا سوال کریں گے، علی ظفر نے کہا کہ میرا یہ کہنا ہے کہ یہ ممبر نہیں تھے۔ چیف جسٹس بولے آپ اپنے گھر میں جمہوریت تو لے کر آئیں۔ کل کو سرکار تمام امیدواروں کو بند کرے اور 326 بلامقابلہ جیت جائیں تو ہم کیوں مانیں۔ عقل اور دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کوئی پارٹی الیکشن کرائے بغیر سرٹیفکیٹ دے دے تو کیا الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکتا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں پارٹی انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے، انتخابات نہ کرانے پر الیکشن کمیشن 2 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی انتخابات کروا کر جرمانے کی اسٹیج سے تو آگے نکل چکی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کون ہیں؟
آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ چیف جسٹس
بیرسٹر علی ظفر بولے کہ بیرسٹر گوہر پارٹی کے چیئرمین ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بیرسٹر گوہر کا اپنا الیکشن ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سرٹیفکیٹ دیتے تو اور بات تھی۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی سربراہ نے دینا ہوتا ہے سابقہ سربراہ نے نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کے وقت چیئرمین کون تھا؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی انتخابات ہوئے تو چیئرمین عمران خان تھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں ہے تو پھر کس کا ہے؟ ہم پوری جمہوریت پر چلیں گے بہت ہو گیا لولی لنگڑی والا کام، علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں انہیں نکال دیا ہے، چیف جسٹس بولے تو آپ ہمیں ریکارڈ سے دکھائیں نا کہ وہ ممبر نہیں۔ علی ظفر نے کہا کہ میں آپ کو وہ دستاویز دکھا دیتا ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی بولیں کہ سرٹیفکیٹ اسی وقت مل سکتا ہے جب انتخابات پارٹی آئین کے مطابق ہوئے ہوں۔ چیف جسٹس بھی بولے کہ پی ٹی آئی آئین کہتا ہے چیئرمین کا الیکشن 2 سال باقی 3 سال بعد ہوں گے، یہاں تک تو پارٹی آئین کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق انتخابی نشان کے لیے انتخابی قوانین پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے، علی ظفر بولے کہ میرا بیان یہی ہے اکبر ایس بابر ممبر نہیں ہیں۔ مجھے ہدایات یہی ملی ہیں وہ ممبر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہدایات کون دے رہا ہے؟ علی ظفر بولے کہ مجھے پارٹی سربراہ ہدایات دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جنہوں نے خود 2 سال پہلے پارٹی جوائن کی وہ ہیں سربراہ؟
چیف جسٹس کا برطانیہ کی پارلیمنٹ کا حوالہ
چیف جسٹس نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں جتنے وزرا اعظم آئے وہ ایک ہی جماعت کے لوگ تھے اور اپنی ہی جماعت نے ان کی مخالفت کی، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے؟ کس طرح مخصوص لوگوں کو علم ہوا کہ یہ کاغذاتِ نامزدگی ہیں اور کب جمع کرانا ہیں۔
چیف جسٹس نے پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر کاغذاتِ نامزدگی چیک کرنے کی ہدایت کر دی
علی ظفر بولے کہ جب الیکشن ہو گیا تو کاغذاتِ نامزدگی ہٹا دیے گئے، چیف جسٹس بولے کہ آپ ہماری سپریم کورٹ کی ویب سائٹ دیکھیں اس پر اگر ہم نوکری کا اشتہار دیتے ہیں وہ ابھی بھی موجود ہوگا، کچھ تو کاغذ کا ٹکڑا دکھا دیں کہ امیدواروں سے فیس لی یا کاغذاتِ نامزدگی لیے۔ علی ظفر بولے فیس کیش میں وصول کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ کونسی سیاسی جماعت کیش میں فیس وصول کرتی ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ امیدواروں سے 50 ہزار روپے فیس لی، اس کا کچھ تو ثبوت دکھا دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا الیکشن شیڈول سر آنکھوں پر اس کی تعمیل دکھا دیں، جسٹس مسرت ہلالی بولیں کہ آپ کی پارٹی کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنانا ہے، لیکن یہاں نظر نہیں آ رہا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنے لوگوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے جو بھی غلطیاں کی اس کے لیے 20 دن کا ٹائم دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے 3 سال پہلے کی بات ہے الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ الیکشن کروائیں، آپ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ کرونا ہے ایک سال کا ٹائم دیا گیا، الیکشن کمیشن نے تو بہادری دیکھائی کہ حکومت میں نوٹس دیا۔ بیرسٹر علی ظفر بولے کہ صرف ہمیں نہیں الیکشن کمیشن نے سب کو نوٹس بھیجا۔
تینوں ججز کا ایک ہی سوال ہے کہ دستاویزات دکھائیں
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ آج نہیں بنا، پچھلے الیکشن بھی اسی قانون کے تحت ہوئے، آپ الیکشن کروا لیں، آپ کچھ دکھا نہیں پا رہے، کیا فیسوں کے پیسے جیب میں ڈال لیے یا گھر لے گئے، علی ظفر بولے کہ ہمارا ایک الیکشن چیئرمین کا ہوتا ہے دوسرا پینل الیکشن ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیئرمین کا الیکشن دکھا دیں، جسٹس محمد علی مظہر نے بھی استفسار کیا کہ آپ نے خود اخباری تراشہ لگایا ہے اکبر ایس بابر کاغذاتِ نامزدگی لینے پہنچ گئے، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی کہا کہ ان کی پچاس ہزار فیس جمع کرانے کا ثبوت کہاں ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جو شیڈیول پی ٹی آئی نے دیا ہے وہ عملی طور پر ممکن نہیں لگ رہا، اگر تو قانون کے بجائے مرضی سے فیصلے کرنے ہیں تو میں تسلیم نہیں کر سکتا، سب سیاسی جماعتوں کیساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے بتایا کہ کسی اور پارٹی کے انتخابات پر اعتراض نہیں آیا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن شیڈیول پر اعتراض کا جواب دوں گا، چیف جسٹس بولے کہ جج صاحب نے اعتراض نہیں کیا سوال کیا ہے، علی ظفر نے کہا کہ پارٹی انتخابات کا شیڈیول پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، ہم نے میڈیا پر اعلان کیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے جا رہے ہیں۔
2009 سے پارٹی میں ہوں آپ کہتے ہیں سب نئے چہرے ہیں، نیاز اللہ نیازی
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ علی ظفروہ خط دکھائیں جس کے تحت عمران خان نے گوہر علی خان کو چیئرمین نامزد کیا، علی ظفر نے کہا کہ وہ میڈیا میں آیا تھا، اس طرح تو ہم نہیں مان سکتے، کاغذ پہ کچھ تو دکھا دیں۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ 29 نومبر کو فیڈرل الیکشن کمیشن کو نامزد کیا گیا، علی ظفرنیاز اللہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا۔ یہ 2009 سے ممبر ہیں۔ چیف جسٹس بولے دیکھیں ناں سب نئے نئے چہرے آ رہے ہیں، پرانے لوگ کہاں ہیں؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عمر ایوب کے پینل نے یکم دسمبر 2023 کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ دوسرا پینل کہاں ہے؟ علی ظفر بولے کہ ایک ہی پینل آیا تھا اور وہ جیت گیا۔ پینل میں 15 افراد تھے جو منتخب ہو کر آئے۔ جسٹس مسرت ہلالی بولیں کہ لگتا ہے آپ کی پارٹی دستاویزات کے معاملے میں کمزور سی ہے، جو بھی دستاویز مانگتے ہیں موجود نہیں ہیں۔
نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ پارٹی میں نئے نئے چہرے آگئے ہیں، میں 2009 سے ہوں، چیف جسٹس بولے میں آپ سے معذرت کرتا ہوں۔ نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ میرا بیٹا لا کلرک کے لیے آپ کے پاس آیا آپ نے اس سے پی ٹی آئی کے سوال پوچھے۔ چیف جسٹس بولے میں نہیں جانتا آپ کا بیٹا کون ہے، یہ لائیو براڈ کاسٹ ہے، آپ کا رویہ مناسب نہیں۔
عدالت نے تھوڑی دیر کے لیے کارروائی معطل کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
گزشتہ سماعت کا احوال:
گزشتہ روز چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ سے معلومات لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی براہ راست سماعت آج دن 10 بجے تک ملتوی کر دی تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے ثابت کر دیا کہ ان کے پارٹی الیکشن درست ہے تو ریلیف دینا لازم ہے، الیکشن کمیشن کو بھی انہیں انتخابی نشان دینا لازم ہوگا، اور اگر پی ٹی آئی ثابت کرنے میں ناکام رہی تو پھر انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
ان ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کو ہدایت کی تھی کہ کل صبح آپ کے دلائل سے سماعت کا آغاز ہوگا۔ کیس جب تک ختم نہیں ہوگا تب تک سماعت چلے گی۔ ہو سکتا ہے آپ سے کل کچھ پوچھنا پڑ جائے۔ ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کسی کو زبردستی تو الیکشن نہیں لڑوا سکتی، کیا صرف اس بنیاد پر انتخابات کالعدم قرار دے دیں، پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملا تو کیا اکبر بابر کو نقصان نہیں ہوگا؟ بلا مقابلہ متفق ہونا کیا عجیب اتفاق نہیں؟ نیاز اللہ نیازی نے کہا تھا کہ تمام عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
واضح رہے پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس کیا تھا جس پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

متعلقہ خبریں