سپریم جوڈیشل کونسل کا سابق جج مظاہرنقوی کیخلاف کارروائی جاری رکھنےکا فیصلہ

اسلام آباد(نیوزڈیسک)سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جج جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور انہیں آگاہی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو آگاہی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک اور موقع دیا ہے، کونسل کا کہنا ہےکہ مظاہر نقوی چاہیں تو کل پیش ہوکر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔کونسل کا کہنا ہے کہ مظاہر نقوی کے وکلا نے وقت مانگا تو شکایت گزاروں کو سنا جائے گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ کل جمعے کو بھی کونسل کی کارروائی جاری رہے گی، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مظاہر نقوی نے گزشتہ روز عہدے سے استعفیٰ دیا تھا جسے صدر مملکت نے منظور کرلیا ہے۔
جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر سماعت ہے جس میں ان پر اثاثوں سے متعلق الزامات تھے جب کہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔
دوسری جانب آج سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن سپریم جوڈیشل کونسل سے الگ ہوگئے جس کے بعد جسٹس منصور کو کونسل میں شامل کرلیا گیا۔
آج سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ پڑھ کر سنایا۔
چیئرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ کیا جسٹس مظاہر نقوی صاحب کے وکیل خواجہ حارث یا ان کے جونیئر موجود ہیں؟ تاہم جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے کوئی کونسل میں پیش نہیں ہوا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل سےکہا کہ استعفیٰ آئین کی جس شق کے تحت دیا گیا وہ پڑھ دیں، اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 179 پڑھ کر سنایا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاونت درکار ہے کہ اب ریفرنس پر کارروائی آگے چلےگی یا نہیں۔
چیئرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ جج کا استعفیٰ آخری مرحلے پر دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد آیا، جج کے استعفے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں، پہلی صورت یہ کہ جج کے خلاف شکایات جھوٹی تھیں، پریشر میں آکر استعفیٰ دیا، دوسری صورت میں جج کے خلاف الزامات درست تھے، وہ سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے، جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہوچکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کے لیے لکھتی، اس صورتحال پر اٹارنی جنرل کی کیا رائے ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ کونسل نے اب کوئی نہ کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے، کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کرکے استعفیٰ دے جائے تو کیا ہمیں خطرہ نہیں ہوگا؟ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟ کیا آئین کی دستاویز صرف ججز یا بیوروکریسی کے لیے ہے؟ آئین پاکستان عوام کے لیے ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے، کونسل کے سامنے سوال یہ ہےکہ جج کے استعفےکی کارروائی پر اثر کیا ہوگا، جج ہٹانےکاطریقہ کار رولز آف پروسیجر 2005 میں درج ہے، سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نےجون 2023 میں فیصلہ دیا کہ جج ریٹائر ہوجائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی، کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کوبھیجی گئیں، کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی، ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر آئینی درخواست2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جب کہ اب ہوچکی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخری دن بتادےکہ برطرف کرنے لگے ہیں اور وہ استعفیٰ دے جائے تو کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفیٰ دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے،جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ دو رکنی بینچ کا تھا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلامیے کے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نےکارروائی شروع کردی تو رائے دینا ہوگی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جج کا استعفیٰ کونسل کو رائے دینے سے نہیں روکتا، اٹارنی جنرل نےکہا موجودہ کیس میں کونسل نے بار بار شوکاز کرکے موقع دیا، اٹارنی جنرل نےکہا ممکن ہےکارروائی کی وجہ سےجج دباؤ میں ہو، اٹارنی جنرل نے کہا ممکن ہے جج کے خلاف شکایات غلط ہوں، اٹارنی جنرل نے کہا پبلک کا وقت اور پیسا کونسل کی کارروائی پر لگ چکا، اٹارنی جنرل نےکہا ہرادارےکی طاقت اس کی شفافیت اور خوداحتسابی پر منحصر ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اپنی خدمت کے لیے نہیں بیٹھے، ہم یہاں اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنےکے لیے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ سمیت سب ادارے عوام کو جوابدہ ہیں، اگر یہ چیز سب سیکھ لیں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے، سوشل میڈیا اور میڈیا پر شور تھا کہ کیا ہم اتنے برے ہیں؟ سپریم کورٹ کی ساکھ بھی تو خطرے میں پڑی۔
معاملہ ہوا میں نہیں چھوڑ سکتےکہ جج نے استعفیٰ دے دیا:جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جج نے استعفے میں لکھا کہ پبلک میں معاملات کی بنا پرکام جاری نہیں رکھ سکتے، استعفےسے تاثر ملتا ہے جیسے جج کو انصاف کی توقع نہیں تھی یا یہاں کوئی ڈریکونین سسٹم چل رہا ہے، اس معاملے کو دیکھنا ہوگا، معاملہ ہوا میں نہیں چھوڑ سکتےکہ جج نے استعفیٰ دے دیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو آگاہی کا نوٹس جاری کردیا جس میں کہا گیا کہ مظاہر نقوی چاہیں تو کونسل میں کل پیش ہوکر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں