آڈیولیکس کمیشن، سپریم کورٹ ججزکے سخت ریمارکس! جسٹس منیب اختر کا رانا ثنااللہ سے استعفے کامطالبہ

آڈیو تحقیقاتی کمیشن کوکام کرنے سے روکنے کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کیخلاف حکومتی اپیل پر چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں نے سخت ریمارکس دیے ہیں حتیٰ کہ بینچ کے ایک رکن جسٹس منیب اختر نے آڈیو لیکس پر بغیر تصدیق کے پریس کانفرنس کرنے پر وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا ۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ میں موثر دلائل دیے اورکوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل 4کا بھی حوالہ دیا جس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ مفادات کا ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا موقف تھا کہ عدلیہ کی آزادی اصل ایشو ہے اور یہ اختیار چیف جسٹس کا ہے کہ بینچ میں کس کو شامل کیا جائے اورکس کو الگ کیا جائے ، جب سے آڈیو لیکس کا معاملہ شروع ہوا ہے یہ ہر روز ایک نیا رخ اختیار کر جاتا ہے ،حکومت کا موقف ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور اس مقصدکیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جس پر پانچ رکنی بینچ نے حکم امتناعی جاری کردیا اور چیف جسٹس کا یہ شکوہ ہے کہ حکومت نے اس پر مشاورت نہیںکی اور ابھی تک حکومت نے یہ تحقیقات کیوں نہیںکی کہ ریکارڈنگ کون کرتا ہے اور لیک کون کرتا ہے؟چیف جسٹس کی ساس اور وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی مبینہ گفتگوکا بھی اٹارنی جنرل نے آج عدالت میں حوالہ دیا ،جہاں تک 14مئی کے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کا معاملہ تھا وہ توکیس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرکے ایک مرتبہ پھر سیاسی جماعتوںکے درمیان مذاکرات کی بات کی گئی ہے ، جن دنوں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ الیکشن کیس کی سماعت اور احکامات جاری کر رہا تھا ہم نے اپنی تحریروں میں واضح طور پر لکھا تھا کہ چیف جسٹس اگر فل کورٹ تشکیل دے دیں توکسی کو اعتراض کا موقع نہیں ملے گا لیکن صرف ہم خیال تین رکنی بینچ پر ہی بھروسہ کیوںکیا گیا اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں بہر حال جب چیف جسٹس کو حساس اداروںکی طرف سے بریفنگ دی گئی تو انہوں نے فیس سیونگ کا راستہ نکالنے کی کوشش کی ، تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے اور مذاکرات کافی حد تک کامیاب ہوگئے تھے لیکن عمران خان کی یہ ضد تھی کہ 14مئی سے پہلے اسمبلیاں توڑی جائیں اور حکومت جولائی کے پہلے ہفتے میں اسمبلیاں توڑکر انتخابات کرانے کیلئے تیار تھی اسی اثناء میں 9مئی کا افسوسناک سانحہ ہوگیا جس نے ملکی سیاست اور حالات کا رخ ہی تبدیل کردیا ،عمران خان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور تحریک انصاف میں تحفے کے طور پر بھجوائے گئے رہنمائوں کے پارٹی چھوڑنے پر کسی کو تعجب نہیں ہورہا تھا تاہم اسد عمر ،علی زیدی ،پرویز خٹک ،عمران اسماعیل ،عامر کیانی جیسے تحریک انصاف کے نظریاتی اورکپتان کے وفادار ساتھیوں کے جانے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عمران خان کسی کا اچھا مشورہ نہیں مانتے تھے اور انہوں نے فوج سے ٹکرائوکی پالیسی اپنائی اورکارکنوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ جی ایچ کیو، کورکمانڈر ہائوس پر حملہ آور ہوئے اور شہداء کی یادگاروںکی بھی بے حرمتی کی گئی ۔

متعلقہ خبریں