محلاتی سازشیں، فیض آباد دھرنا اور انکوائری کمیشن۔۔۔ تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کے لیے ریٹائرڈ آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں سابق آئی جی طاہر عالم اور ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ خوشحال خان پر مشتمل انکوائری کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن جاری کرنے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی۔ کمیشن اس وقت کے وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت کسی بھی عہدے دار کو طلب کر سکے گا۔ کیا سال 2017 میں واقعی امیدواروان کے الیکشن فارم پر ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلف نامہ کو ختم کردیا گیا تھا؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں کیا گیا تھا ۔
قارئین کی سہولت کے لئےپارلیمنٹ کی جانب سے 2اکتوبر 2017کو منظور شدہ بل کی کاپی کا لنک پیش خدمت ہے اور اسکا صفحہ نمبر 119ملاحظہ فرمائیں جس میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ ختم نبوت کے حلف نامہ کی مکمل عبارت موجود ہے۔ https://na.gov.pk/uploads/documents/1507618619_667.pdf ۔ حلف کی جگہ اقرارنامہ کے الفاظ کی بدولت اس حساس موضوع نے پوری ریاست پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یہ الیکشن فارم پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کے لئے بنائی گئی 34رکنی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے تیار کیا تھا اور یہ کمیٹی تمام پارلیمانی جماعتوں بشمول سب سے زیادہ پروپیگنڈا کرنے والے شیخ رشیدپر مشتمل تھی ۔ بہرحال حکومت وقت اور پارلیمنٹ نے 19اکتوبر 2017 کو ترمیمی بل کے ذریعہ ہر قسم کے شکوک کو ختم کرتے ہوئے حلف اور اقرارنامہ دونوں الفاظ کو الیکشن فارم کا حصہ بنا دیا اورختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلف نامہ کے حوالہ سے ہونے والی شدید ترین اختلافی بحث کو ختم کردیا ۔کچھ عرصہ خاموشی کے بعد آناً فاناً 5نومبر2017 ٹی ایل پی کی جانب فیض آباد انٹرچینج اسلام آباد پر شدید احتجاج اور دھرنا دے دیا گیا۔
فیض آباد دھرنا کیا سازش تھی ؟ اسکے محرکات کیا تھے؟ اس بابت سپریم کورٹ فیض آباد دھرنا کیس فیصلہ میں کھل کر بتا دیا گیاتھا کہ اس دھرنا کے مقاصد اور اسکے پیچھے چھپے ہوئے عناصر کون تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے تحریر کردہ فیض آباد دھرنے کا فیصلہ جو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے ، جس کا لنک پیش خدمت ہے :https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/S.M.C._7_2017_06022019.pdf۔ یہ مقدمہ پڑھنے کے قابل ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی عملدرآمد کا متقاضی بھی تھا۔فیض آباد دھرنا موضوع پر پاکستان مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف محلاتی سازشوں کے پس منظر کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ یاد رہے آمر مشرف کے خلاف نومبر 2007 کی آئین شکنی یعنی ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین پاکستان کو معطل کرنے کی بنا پرجب منتخب وزیراعظم نواز شریف نے سال 2013کے آخیر میںپرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تابع عدالت کا دروازہ کھٹکٹایا تو انکے خلاف محلاتی سازشوں کا سلسلہ جاری کردیا گیا۔ سال 2014سے 2017تک جاری محلاتی سازشوں کی بدولت بالآخر نواز شریف کو مسند اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔
مگر سازشوں کے نہ رکنے والے سلسلے نے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی باقی ماندہ حکومت و جماعت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کی خاطر مذہبی جذبات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حُرمت پر اپنا تن من دھن وارنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیںاور اک مسلمان کے لئے ایسے جذبات رکھنا اسکے ایمان کا جزو لازم ہے۔ مگر تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو بہت سے مواقعوں پر پاکستانی مسلمانوں کے جذبات سے کئی مرتبہ کھیلا گیاکبھی افغان جہاد کے نام پر تو کبھی امریکہ مردہ باد کے دلکش نعروں کے نام پر۔سال 2018کے انتخابات میں بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ ن کو ووٹ ڈالنا حرام قرار دینے کے فتوے جاری کرنے کیساتھ ساتھ میڈیا پر اعلانات بھی کروائے گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی دونوں معزز ججز کو فیض آباد دھرنا کے پیچھے چھُپی ہوئی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ جسٹس شوکت صدیقی کو عہدہ سے ہٹادیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کو فیض آباد دھرنا کیس میں دلیرانہ فیصلہ کی پاداش میں تین سال تک محلاتی سازشوں کا شکار رہنا پڑا ، انکے عدالتی ٹرائل کیساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی برسراقتدار حکومت کی جانب سے بھرپور میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا۔فیض آباد دھرنا سازش تھی یا نہیں؟ دونوں معزز ججز کے خلاف ہونے والے سلوک ہی اس بات کا ثبوت تھے کہ فیض آباد دھرنا اک مکمل منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی محلاتی سازش کا شاخسانہ تھا۔
نظر ثانی مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان مذاق تو نہیں ہے، اس ملک کو مذاق نہ بنایا جائے کہ جو دل چاہے کریں، پورے ملک کو نچوایا پھر اوپر سے حکم آیا تو نظرِ ثانی واپس لینے کا کہہ دیا، نظرِ ثانی دائر کرنا تو ٹھیک ہے مگر 4 سال بعد واپس لینا عجیب فیصلہ ہے۔ عدالت میں سچ کوئی نہیں بولتا کہ کس کے کہنے پر نظرِ ثانی درخواست دائر کی، نفرتیں پھیلا کر پھر لوگ خود پیچھے ہٹ جاتے ہیں، سڑکیں بند کرنے اور املاک جلانے والوں کو ہیرو کہا جاتا ہے، پہلے دھرنے کے حق میں بیانات دیے گئے، اب عدالت آ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم کیس نہیں چلانا چاہتے۔ کاش فروری 2019میں سنائے گئے فیض آباد دھرنا فیصلہ کے خلاف نظرثانی درخواستیں دینے اور چار سال تک نظر ثانی مقدمہ سپریم کورٹ کے صندوقوں میں بند رکھنے کی بجائے اس فیصلہ پر من عن عملدرآمد ہوجاتا اور فیض آباد دھرنا کی پلاننگ کرنے والے سازشی عناصر کی سرکوبی کرلی جاتی تو آج پاکستان کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔

متعلقہ خبریں