موٹروے یا ڈیم ۔۔۔؟؟ تحریر: چوہدری اصغر علی جاوید

پاکستانی قوم گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کررہی ہے جس پر گزشتہ حکومتوں میں کسی نے بھی دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا وہ چیلنج ہے پانی کی کمی اور نئے ڈیمز کی تعمیر میں چشم پوشی
گزشتہ ایک دہائی سے بھارت نے ہمارے بڑے دریاؤں پر بند باندھ کر 100 سے زائد نئے ڈیم بنا کر ہمیں خشک سالی سے دوچار کردیا ہے ہمارے ملک میں زیر زمین پانی کی سطح بتدریج نیچے جارہی ہے پاکستان میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب کا پانی دریاؤں سے ہوکر آبادیوں اور زرعی زمینوں کو تباہ برباد کرتے ہوئے سمندر کی نظر ہورہا ہے دنیا کے متعدد ممالک نے اپنی سمندری بندرگاہوں پر پانی کو صاف کرنے کے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا کر انسانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پینے کے پانی کا مسئلہ آئندہ کئی سالوں کے لئے حل کرلیا ہے ایک طرف ہمارے دریا خشک ہورہے ہیں دوسری جانب زیر زمین پانی کی سطح نیچے گر رہی ہے جس سے ایک طرف خشک سالی پیدا ہورہی ہے دوسری جانب نئے ڈیمز نہ بننے سے پانی سے بجلی کی پیداوار کم ہوتی جارہی ہے اور ہمارے گھریلو و کمرشل استعمال کے بجلی کے یونٹ کا ریٹ 60 روپے سے بھی تجاوز کرتا دکھائی دیتا ہے جو آئندہ آنے والے سالوں میں اگر نئے ڈیمز نہ بنے تو آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بھی کم ہوگی اور بجلی کے نرخ بھی عام آدمی کی پہنچ سے مکمل دور ہوجائیں گے بجلی سے چلنے والی انڈسٹری بجلی پوری ملنے سے بتدریج بند ہوتی چلی جائے گی جس سے ایک خوفناک معاشی بحران پیدا ہوجائے گا موٹروے بلاشبہ فاصلوں کو کم کرنے کے لئے بہت ضروری ہے لیکن اس سے بھی ضروری ملک میں نئے ڈیمز بنانا ہیں اگر موٹرویز اور دیگر بڑے منصوبوں پر نئے ڈیمز کی تعمیر کو ترجیح دی جائے تو آئندہ آنے والی نسلیں اور پاکستان کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے ملک کے جو بھی حکمران آئے ہیں انہوں نے اس اہم قومی مسئلہ کو حل کرنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی آئندہ آنے والے سالوں میں ہماری سب سے بڑی جنگ پانی کی کمی پر ہوگی جسکا اگر اب ادراک نہ کیا گیا تو یہ بڑا چیلنج ہمارے ملک کو ایک ناقابل تلافی قومی چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا قوم سے ٹی وی اور ریڈیو فیس کی بجائے بجلی کے بلوں میں ڈیم فیس وصول کرکے اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے فوری عملی اقدامات اٹھانے ہونگے اسوقت بجلی کی قیمتیں جو آئے روز بڑھتی چلی جارہی ہیں اور اسکا بوجھ برداشت کرنے کی قوم میں سکت باقی نہیں رہی اس بوجھ تلے سے پوری قوم کو نکالنے کا واحد حل نئے ڈیمز کی تعمیر ہے جسکے لئے ہمارے طاقتور ادارے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اقتدار کے حصول کی جنگ اور مخالف کا نام و نشان تک مٹانے کی جدوجہد میں ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں سے دشمنی مول لے رہے ہیں اس قومی ایشو پر طاقتور ادارے کو اپنی طاقت سے کا استعمال کرتے ہوئے تمام قومی لیڈرشپ کو ایک ٹیبل پر لانا ہوگا ورنہ ہماری سیاسی قیادت کی یہ ترجیح نہیں ہے ہر جماعت اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتی ہے پرانے ڈیمز کی مدت ختم ہونے کو ہے اگر خدانخواستہ انکی مدت ختم ہونے سے پہلے نئے ڈیمز نہ بنائے گئے تو ملک تاریخ کے بدترین چیلنج کا مقابلہ نہیں کرپائے گا
حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہییئں اور سیاست سیاست کھیلنے کی بجائے ملک کے مستقبل کے لئے اس قومی منصوبے پر مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیئے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا غیر ملکی کمپنیاں ہی پاکستان کے ہر شعبے پر قابض ہونگی اور پاکستانی قوم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انکی غلام بن کر رہ جائے گی

متعلقہ خبریں