جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال

فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کے خلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ کسی کے خلاف شواہد نہ ہونے پر کارروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سوسائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔

6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔

سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹروم پر آ گئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی اس کیس میں درخواست دائر کی تھی،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار بھی اس کیس میں فریق بن رہی ہے، اچھے دلائل کو ویلکم کریں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ آج اس وقت درخواست دائر کر رہے ہیں؟ کیا آپ کی درخواست کو نمبر لگ گیا ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ ابھی افس میں دائر ہو گئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔

اپنی بات پر قائم ہوں، 102 لوگوں کا ٹرائل نہیں ہو رہا، اٹارنی جنرل
دریں اثنا چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سویلین کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، کل ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم 102 لوگوں کا ٹرائل کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنی کل کی بات پر قائم ہوں کہ 102 لوگوں کا ٹرائل نہیں ہو رہا، وزارتِ دفاع کے لوگ آئے ہیں، میری بات کی تائید کریں گے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ہمیں اس بات پر کلیئر ہونے کی ضرورت ہے کہ ملزمان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 2 (ڈی) (ون) کے تحت تحویل میں لیا گیا یا 2 (ڈی)(2) کے تحت؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابتدائی طور پر 2 (ڈی) (2) کے تحت ملزمان کو حراست میں لیا لیکن 2 (ڈی) (ون) کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملزمان کے حوالے سے جو الزامات سامنے آنے ہیں ان کا تعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے نہیں ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی نظائر کی رو سے کیا معیار مقرر کیا گیا ہے کہ کس کو عام عدالت اور کس کو فوجی عدالت میں ٹرائی کرنا ہے ؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیاقت حسین کیس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر کیس ملٹری کورٹ میں ٹرائی نہیں ہو سکتا بلکہ کیس کا تعلق آرمی ایکٹ کے ساتھ ثابت ہونا چاہیے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق، الگ وجوہات تھیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف بی ایل ای کیس کہتا ہے کہ کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے، یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہو گا،جس پر ٹرائل ہو گا۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہوا میں بات کر رہے ہیں، 2 (ڈی) (2) کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں اس پر معاونت کرنی ہے۔

ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے، اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہ ہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تو ہو گا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صرف جنگ اور جنگی حالات میں کسی شخص کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے، جب بنیادی حقوق معطل نہ ہوں تو سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمارا آئین، ہمارے بنیادی حقوق، ہمارے قوانین سب ارتقائی مراحل سے گزر کر مختلف ہو چکے ہیں، اب ہمارے آئین میں آرٹیکل اے-10 شامل ہے جس کو دیکھنا ضروری ہے۔

عزیر بھنڈاری نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچرکی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں، یہ تمام آرٹیکل بیشک الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے، سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہو گی، ایف آئی آر میں کہیں بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا، آرمی اسپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے، اگر وہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا، دریں اثنا عزیر بھنڈاری نے سیکشن 2 (ڈی) پڑھ کر سنایا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے جرم آفیشل سیکیریٹری ایکٹ کے تحت ہونا چاہیے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ دیکھائیں۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آفیشل آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی ممنوعہ قرار دیے گئے علاقے پر حملہ یا استعمال جس سے دشمن کو فائدہ ہو جرم ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ممنوعہ علاقہ تو وہ ہوتا ہے جہاں جنگی پلانز یا جنگی تنصیبات ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمی افسران کی سب سے اہم چیز ان کا مورال ہوتا ہے، آرمی افسران کا مورال ڈاون کرنا بھی جرم ہے،آرمی افسران اپنے ہائی مورال کی وجہ سے ہی ملک کی خاطر قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں، اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہو گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز ہو جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔

دریں اثنا عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا، وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کیا آفیشل سیکرٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ جی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے، ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کازکر ہی نہیں ہے، ایکٹ میں ترمیم کےذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں، 2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتاہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے، سقم قانون میں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ شاعر احمد فراز کے مقدمے میں جسٹس افضل ظلہ نے کہ چونکہ ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی اس لئے ان کو ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرمی اتھارٹیز کسی شخص کو چارج کیے بغیر کیسے گرفتار کر سکتی ہیں؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت تفتیش کیسے ہو گی اور فرد جرم کیسے لگے گی؟ ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ آرمی ایکٹ اس حوالے سے نامکمل ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اس وقت تو ملزمان پر کوئی چارج ہی نہیں ہے، عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف آئی آر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت ہوئی مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے، انہوں نے شاعر احمد فراز اور سیف الدین سیف کیس کے حوالے دیتے ہوئے مزید کہا کہ احمد فراز پر الزام لگا تھا مگر ان کو باضابطہ چارج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمجھ سے باہر ہے کہ جب کسی کیخلاف ثبوت نہیں تو فوج اسے گرفتار کیسے کر سکتی ہے؟ کسی کے خلاف شواہد نہ ہونے پر کارروائی کرنا تو مضحکہ خیز ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریماکرس دیے کہ ایک مجسٹریٹ بھی تب تک ملزم کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتا جب تک پولیس رپورٹ نہ آئے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جو افراد غائب ہیں ان کے اہلخانہ شدید پریشانی کا شکار ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل سے تفصیلات مانگی تھیں، امید ہے وہ والدین کے لیے تسلی بخش ہوں گی۔

عزیر بھنڈاری نے مزید کہا کہ میرے مؤکل چیئرمین پی ٹی آئی کے مطابق تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہی بد نیتی پر ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی پر موقف دینے کی بھی پابندی ہے، میڈیا پر نہیں چلتا، کچھ مستند آوازیں ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شکوک شبہات کا اظہار کر رہیں ہیں، ہماری استدعا ہے کہ اوپن ٹرائل کیا جائے۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیا پر مکمل بین ہے، اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیے، صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے 1975 کے فیصلے میں طے کیا کہ جوڈیشل سائیڈ پر طے ہو گا ملزم کون ہے۔

دریں اثنا چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے، درخواست گزار زمان وردک نے تحریری دلائل جمع کروا دیے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل شروع
دریں اثنا اٹارنی جنرل نے دلائل کا اغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی تحریری معروضات کے ساتھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی معلومات فراہم کروں گا، میں ایف آئی آر میں افیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہ ہونے پر بھی معاونت کروں گا، ملزمان کی کسٹڈی لیتے وقت الزامات بھی فراہم جردیے تھے،9 مئی کا واقعہ تھا جس کے بعد 15 دن لیے گئے پھر ملزمان کی حوالگی کا عمل ہوا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت چارج کرنے کا طریقہ رولز میں ہے، کیا آپ آج اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تحریری دلائل وقفے کے بعد جمع کروا دوں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سے معروضات کی تفصیل بھی مانگی تھی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت 102 ملزمان ملٹری تحویل میں ہیں، تحویل میں موجود ملزمان کو گھر والوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ والدین بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو ہفتے میں ایک بار ملاقات کی اجازت ہو گی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں کچھ جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو فون پر بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ عام حالات سے کافی بہتر ہے، کھانا محفوظ ہے یا نہیں اس کا ٹیسٹ تو نہیں ہوتا مگر وہ کھانا کھانے سے کسی کو کچھ ہوا تو ذمہ داری بھی شفٹ ہو جائے گی۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیوں خفیہ رکھا جا رہا کہ 102 ملزمان کون سے ہیں، کیا ہم 102 افراد کی لسٹ کو پبلک کر سکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی نہیں، ابھی وہ زیر تفتیش ہیں۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ پہلے یقینی بنائیں کہ زیر حراست افراد کی اپنے والدین سے بات ہو جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عید پر ہر کسی کو پتہ ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے، عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فہرست پبلک کرنے کے حوالے سے ایک گھنٹے تک چیمبر میں آگاہ کر دوں گا، صحت کی سہولیات سب زیر حراست ملزمان کو مل رہی ہیں ڈاکٹرز موجود ہیں، صحافیوں اور وکلا کے حوالے سے کچھ واقعات ہوئے ہیں، ریاض حنیف راہی سے کل بات بھی کی، ان کی شکایات کا ازالہ ہو گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ کیسز میں سزائے موت کا کوئی ایشو ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سزائے موت غیر ملکی رابطوں کی صورت میں ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ ملزمان کی آج ہی اہلخانہ سے بات کروائیں، اب ہم عید کے بعد ملیں گے، جو لوگ گرفتار ہیں ان کا خیال رکھیں۔

دریں اثنا عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ مذکورہ درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون کو سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔

گزشتہ روز (26 جون کو) ہونے والی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا، جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا اور سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

درخواستوں کا متن
واضح رہے کہ 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔

اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔

اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔

9 مئی کی ہنگامہ آرائی اور بعد کے حالات
خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔

احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔

بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔

بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔

اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

متعلقہ خبریں