سی سی پی او تبادلے کا معاملہ ٹھنڈا پڑگیا ٹرانسفر آرڈرز پنجاب حکومت کو اب تک موصول نہ ہوئے

لاہور (این این آئی)لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او)غلام محمود ڈوگر کے تبادلے وفاق اور صوبائی حکومت کے حالیہ تنازع سے کچھ ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ صوبائی حکام کو ابھی تک باضابطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن (ای ڈی)سے افسر کے تبادلے کے احکامات موصول نہیں ہوئے ہیں۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق 20 ستمبر کو جب سی سی پی او کے تبادلے کے احکامات سوشل اور روایتی میڈیا پر آئے تو ہلچل مچ گئی اور پرویز الٰہی کی زیر قیادت پنجاب حکومت نے مرکز کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ غلام محمود ڈوگر کی خدمات واپس نہیں کرے گی۔جنہوں نے مبینہ طور پر مسلم لیگ (ن)کے دو وفاقی وزرا مریم اورنگزیب اور میاں جاوید لطیف کے علاوہ سرکاری زیر انتظام پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی)کے دو سینئر عہدیداروں کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مذہبی منافرت کو ہوا دینے اور ان کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے الزام میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔اس معاملے نے میڈیا نے اس وقت مزید زور پکڑا جب وزیر اعلی پرویز الٰہی نے زور دے کر کہا کہ پنجاب کا کوئی بھی سول افسر پنجاب حکومت کی باضابطہ اجازت کے بغیر وفاقی حکام کو رپورٹ نہیں کرے گا۔بعد میں غلام محمود ڈوگر نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ اس چارج سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اس کے نتیجے میں انہیں وزیر اعلی نے بلایا اور ہمت دکھانے پر ان کی پیٹھ پر تھپکی دی گئی تھی۔جہاں مسلم لیگ (ن)وفاقی افسر کے صاف انکار پر غصے میں آئی، پارٹی کے سینئر رہنما رانا مشہود نے میڈیا میں کہا تھاکہ سی سی پی او لاہور محمود ڈوگر نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو قبول نہ کرتے ہوئے بطور وفاقی سرکاری ملازم اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔مسلم لیگ (ن)کی قیادت اور

بیوروکریسی میں شامل لوگ غلام محمود ڈوگر کے موقف کو انکار سمجھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے ان کو دی جانے والی سزا پر بات کرنے لگے۔قواعد کے مطابق، فیڈرل سروس آفیسر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے تبادلے کے احکامات جاری کرنے کے سات روز کے

اندر چارج چھوڑنا ہوتا ہے تاہم بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کی بات یہ ہوگی کہ محمود ڈوگر کے تبادلے کے احکامات ابھی تک پنجاب حکومت کو موصول ہی نہیں ہوئے۔چیف سیکرٹری کے دفتر کے ذرائع بتایا کہ پنجاب کے چیف سیکریٹری کے دفتر کو ویک اینڈ تک سی سی پی او لاہور کے تبادلے کا کوئی حکم موصول نہیں ہوا تھا۔ادھر پنجاب کے وزیر داخلہ ریٹائرڈ کرنل محمد ہاشم نے اس کی تصدیق کی

اور کہا کہ پنجاب کو ابھی تک سی سی پی او لاہور کے تبادلے کا کوئی آرڈر موصول نہیں ہوا۔ایک سینئر بیوروکریٹ نے اس معاملے پر ساری بحث کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک ایسی بحث شروع کرنے کا وقت نہیں آیا کیونکہ پنجاب حکومت کو باضابطپہ طور پر تبادلے کے

احکامات موصول ہونے کے بعد افسر کو سات روز (جواب دینے کیلئے)ملیں گے۔طریقہ کار کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باضابطہ طور پر احکامات موصول ہونے کے بعد چیف سیکریٹری انہیں سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے انتظامی سیکریٹری کو بھیجیں گے

، جو اسے پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی)کو ان کی رائے کے لیے بھیجیں گے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جس کے بعد بالآخر پنجاب حکومت کو ٹرانسفر آرڈر کا جواب دینا ہوگا اور وہ وفاقی حکومت سے اسے منسوخ کرنے کی درخواست کر سکتی ہے کیونکہ اسے صوبے میں افسروں کی خدمات کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں