کاروبار اور زمین سیلاب کی نذر ہو گئے،مکان ٹوٹ گیا، چار بیویوں اور 23 بچوں کا باپ غلام فرید پھر بھی خوش

اسلام آباد، لندن (آن لائن)سیلاب متاثرین میں ایک ایسا شخص بھی ہے جس کی چار بیویاں اور 23 بچے ہیں لیکن وہ بالکل پریشان نہیں۔غلام فرید کا کہنا ہے کہ کاروبار اور زمین سیلاب کی نذر ہو گئے، گھر کا کچھ حصہ بھی سیلاب کے باعث ٹوٹ گیا لیکن اس کے باوجود مجھے فکر نہیں کیونکہ اللہ نے مشکل دی ہے اور وہ ہی اس مشکل کو ختم بھی کرے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اللہ کا شکر ہے۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ضلع راجن پور کے رہائشی غلام فرید کے لیے سیلاب کے بعد معاملات دوسرے متاثرین سے کچھ مختلف ہیں کیونکہ ان کا خاندان 28 افراد پر مشتمل ہے اور ان کی چار بیویاں اور 23 بچے ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے غلام فرید کا کہنا تھا کہ سیلاب سے پہلے ان کی گزر بسر بہت اچھے انداز میں ہو رہی تھی۔’میرا موٹر سائیکلوں کا شو روم تھا اور میں آرام سے مہینے کے ڈیڑھ لاکھ روپے کما لیتا تھا۔ اس کے علاوہ میری زمین بھی تھی جو اس وقت سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہاں سے اناج وغیرہ آ جاتا تھا۔ میں نے جانور بھی رکھے ہوئے تھے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’سیلاب سے پہلے سب کچھ بہترین انداز میں چل رہا تھا اور مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اللہ نے مجھے ہمیشہ اتنا نوازا کہ اتنے بڑے خاندان کے باوجود بھی میں روزانہ لسی بنا کر لوگوں کو اس سوچ سے پلاتا تھا کہ اللہ نے مجھے دیا ہے اس لیے میں لوگوں میں بانٹوں۔‘سیلاب غلام فرید نے بتایا کہ انھوں نے چار شادیاں کی ہیں۔ ’میری دو بیویاں بیوہ تھیں جن کے پانچ بچے ہیں۔ میں نے اس سوچ کے ساتھ ان سے شادی کی کہ اللہ مجھے ان کے نصیب کا دے گا۔‘’وہ میرے دوستوں کی بیویاں تھیں۔ جب میرے دوستوں کا انتقال ہوا تو میں نے ان سے شادی کی اور ان کے بچوں کو بھی اپنے پاس رکھا۔ اس کے علاوہ میری باقی دو بیویوں میں سے 18 بچے ہیں۔ حال ہی میں میرا ایک بچہ ہوا،

جو ڈیڑھ ماہ کا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’میں کبھی رزق کے لیے پریشان نہیں ہوا۔ بیوی بچوں کے علاوہ میرے والدین بھی ہیں جن کا خرچہ بھی میں ہی اٹھا رہا ہوں۔ ہماری کل مہینے کی گندم آٹھ من لگتی تھی۔ جب سے سیلاب آیا ہے تو مسائل کا سامنا ہے لیکن آج بھی اللہ پر پورا بھروسہ ہے کہ حالات بدل جائیں گے۔‘غلام فرید نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے ان کے گھر کی چھتوں پر دراڑیں پڑ گئی ہیں جبکہ کمرہ اور غسل خانہ گر گیا۔’اس سے میرے گھر والوں کی بے پردگی ہو رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے میری درخواست پر مجھے دو خیمے دیے لیکن میرا خاندان کافی بڑا ہے، اس لیے ان خیموں میں گزارا کرنا انتہائی مشکل تھا تو میں نے دو بیویوں اور کچھ بچوں کو ٹوٹے ہوئے گھر میں رکھا۔

متعلقہ خبریں