پاکستان کو مصنوعی ذہانت کے فروغ کیلئے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے کیونکہ مستقبل قریب میں پورا عالمی ڈھانچہ مصنوعی ذہانت پر منتقل ہو جائیگا اور اگر ہم نے اس پر بھی توجہ نہ دی تو پھر ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے صرف آئی ٹی کے شعبہ میں 2025 ء تک 97ملین نئی نوکریاں پیداہوں گی جس سے روایتی نوکریاں مکمل ختم ہوجائیں گی اور اس صورتحال سے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں اس لیے ہمیں فوری طور پر تعلیم یافتہ افرادی قوت کو مصنوعی ذہانت اور اس سے متعلقہ علوم کی تربیت دینا ہو گی ہمارے ہاں ریٹیل بزنس سے متعلقہ 80فیصد اداروں کے مالکان کا خیال ہے کہ وہ 2027ء تک مصنوعی ذہانت پر منتقل ہوں گے جس کے بعد افرادی قوت کی جگہ مشینیں اور روبوٹ لے لیں گے جبکہ مزدور طبقہ سمیت سیلز مین وغیرہ افراد بے روزگار ہو جائیں۔
ویسے بدقسمتی سے ہم نے آج تک مزدور اور کلرک ہی پیدا کیے ہیں اور خوش قسمتی سے جو اعلی عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں وہی بھی گھر سے اپنے دفتر مزدوری کرنے ہی جاتے ہیں اور ہمارے مزدوروں کا حال بھی آپ کے سامنے ہی ہے ہمارے ہاں ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی والے بہت مل جائیں گے وہ بھی بے روزگار کیونکہ ہمارا نظام تعلیم ہی اس طرح کا ہے کہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والا بچہ اعلی اور اچھی تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا اور پاکستان میں 80فیصد لوگوں کا تعلق غربت کے خاندان سے ہے اگر ہم نے ہنگامی بنیادوں پر اپنے آپ کو تبدیل نہ کیا تو پھر آنے والے بے روزگاری کے طوفان کے سامنے کوئی بھی ٹھہر نہیں سکے گا آج ہم 2023 میں رہ رہے ہیں اور اس سال کے آخر تک عالمی معیشت میں مصنوعی ذہانت کا حصہ 15.7ٹریلین ڈالر ہو جائیگا عالمی سطح پر 86فیصد ادارے مصنوعی ذہانت کے مرکزی دھارے میں شامل ہو چکے ہیں۔
اس کی وجہ سے نہ صرف اُن کے اخراجات کم ہوئے ہیں بلکہ ان کے منافع میں بھی اضافہ ہوا اور ہم ابھی تک ان کاموں سے فائدہ نہیں اٹھا رہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 60فیصد پیداواری عمر کی افراد قوت دی ہے مگر انہیں مناسب ہنر نہ سکھانے کی وجہ سے وہ بھی اپنے والدین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور اس صورتحال میں ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے مصنوعی ذہانت بارے ہمیں اپنے نصاب میں ضروری تبدیلی کر کے زیر تعلیم طلبہ کو اس شعبہ میں پڑھانے کی اشد ضرورت ہے اگر ہم سکول کی سطح سے ہی نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کا سلسلہ شروع کردیں تو آنے والے دور میں ہماری انڈسٹری بھی ترقی کریگی اور مختلف اشیا میں ملک بھی خود کفیل ہو جائیگا آجکل چونکہ مصنوعی ذہانت کا چرچا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف ہے مصنوعی ذہانت کی بنیاد 1956 میں ایک تعلیمی نظم و ضبط کے طور پر رکھی گئی تھی اور پھر اس پر متعدد تجربات کیے گئے اس فیلڈ کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی تھی کہ انسانی ذہانت کی نقل کرنے کے لیے ایک مشین بنائی جائے جو بلکل انسانی ذہن کی طرح کام کرے 1960 کی دہائی کے وسط تک امریکہ میں تحقیق کے لیے محکمہ دفاع کی طرف سے بہت زیادہ مالی اعانت فراہم کی گئی جس سے دنیا بھر میں لیبارٹریز قائم کی گئی 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں محققین کو یقین تھا کہ علامتی نقطہ نظر بالآخر مصنوعی عمومی ذہانت کے ساتھ ایک مشین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ہربرٹ سائمن نے پیشین گوئی کی تھی مشینیں بیس سال کے اندر اس قابل ہو جائیں گی کہ کوئی بھی کام جو ایک انسان کرسکتا ہے وہی کام مشین کے زریعے بھی ممکن ہوپائے گا مصنوعی ذہانت (AI) ذہانت ہے جس سے معلومات کو سمجھنا، ترکیب کرنا اور اندازہ لگاناسب مشینوں کے زریعے ہوگا جبکہ انکے مثالی کاموں میں آواز کی شناخت، کمپیوٹر ویژن اورمختلف زبانوں کے درمیان ترجمہ کی میپنگ شامل ہیں۔
AI ایپلی کیشنز میں ایڈوانس ویب سرچ انجن (جیسے گوگل سرچ)، سفارشی نظام (یوٹیوب، ایمیزون اور نیٹ فلکس کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے) انسانی تقریر کو سمجھنا (جیسے سری اور الیکسا)، خود چلانے والی کاریں (مثلاً، ویمو)، جنریٹو یا تخلیقی ٹولز (ChatGPT اور AI آرٹ)، خودکار فیصلہ سازی، اور اسٹریٹجک گیم سسٹمز (جیسے شطرنج اور گو) میں اعلیٰ سطح پر مقابلہ وغیرہ شامل ہےAI تحقیق کے مختلف ذیلی شعبے خاص اہداف اور مخصوص ٹولز کے استعمال پر مرکوز ہیں۔ AI تحقیق کے روایتی اہداف میں استدلال، علم کی نمائندگی، منصوبہ بندی، سیکھنا، فطری زبان کی پروسیسنگ، ادراک، اور اشیاء کو حرکت دینے اور جوڑ توڑ کرنے کی صلاحیت شامل ہے AI محققین نے مسائل کو حل کرنے کی وسیع تر تکنیکوں کو اپنایا اور مربوط کیا ہے جس میں تلاش اور ریاضی کی اصلاح، رسمی منطق، مصنوعی اعصابی نیٹ ورکس، اعداد و شمار، امکان اور معاشیات پر مبنی طریقے شامل ہیں AI کمپیوٹر سائنس، نفسیات، لسانیات، فلسفہ اور بہت سے دوسرے شعبوں کو بھی نمایا ں کررہا ہے۔
ریاضیاتی منطق کا مطالعہ براہ راست ایلن ٹیورنگ کے نظریہ حساب کی طرف لے گیا جس نے تجویز کیا کہ ایک مشین "0” اور "1” جیسی سادہ علامتوں کو تبدیل کرکے ریاضیاتی کٹوتی کے کسی بھی قابل تصور عمل کی نقل کر سکتی ہے اور پھر نیورو بیالوجی، انفارمیشن تھیوری اور سائبرنیٹکس میں ہم آہنگی سمیت مختلف دریافتوں کے ساتھ محققین کو ایک الیکٹرانک دماغ کی تعمیر کے امکان پر غور کرنے پر مجبور کیا 1950 کی دہائی تک مشینی ذہانت کے حصول کے لیے دو تصورات سامنے آئے تھے۔ ایک وژن جسے Symbolic AI یا GOFAI کے نام سے جانا جاتا ہے جس میں کمپیوٹر کا استعمال دنیا اور ایسے نظاموں کی علامتی نمائندگی کرنے کے لیے کرنا تھا جو دنیا کے بارے میں استدلال کر سکیں اس نقطہ نظر کے قریب "ہورسٹک سرچ” نقطہ نظر تھا جس نے ذہانت کو جوابات کے امکانات کی تلاش کے مسئلے سے تشبیہ دی تھی جبکہ دوسرا نقطہ نظر جسے کنکشنسٹ اپروچ کہا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ دے اور نہ ہی ہمارے بابوؤں نے اگر توجہ رہی تو اس بات پر کہ پاکستان میں غریبوں کو رگڑا کیسے لگانا ہے انکی آنے والی نسلوں کوغلام کیسے بنانا ہے اور پھر اس قوم کو جہالت کی دلدل میں دھکیل کر ان پر حکمرانی کیسے کرنی ہے باپ کے بعد بیٹے نے ملک پر قبضہ کیسے کرنا ہے کیونکہ اگر قوم کو شعور آگیا تو پھر حکمران بھی کام کے آٗیں گے جو ملک کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی باوقار بنائیں گے کاش کوئی تو سمجھے۔
یہ بھی پڑھیے