کیا دنیا پر ڈالر کا غلبہ ختم ہو سکتا ہے اور ایسا کب اور کون کر سکتا ہے؟

20 ویں صدی کے وسط سے دنیا پر امریکی کرنسی یعنی ڈالر کا غلبہ ہے اور گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد واقع پر اس غلبے کے ٹوٹنے، ختم ہونے یا کمزور پڑنے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہر کوئی ڈالر میں تجارت کیوں کرتا ہے اور کیا ڈالر کا کوئی متبادل ہے؟
20 ویں صدی کے وسط سے دنیا پر امریکی کرنسی یعنی ڈالر کا غلبہ ہے اور گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران متعدد مواقع پر اس غلبے کے ٹوٹنے، ختم ہونے یا کمزور پڑنے کی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں۔

یکم جنوری 1999 میں یورپی کرنسی ’یورو‘ کے متعارف ہونے کے بعد اور سنہ 2008 میں امریکہ سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے بعد بھی امریکی ڈالر کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ گذشتہ سال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بھی ڈالر کے خاتمے کی بات کی گئی، مگر یہ کرنسی بدستور بڑی کرنسی کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔

مگر آئیے دیکھتے ہیں کہ پچھلی دہائی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں اور ڈالر کی تنزلی کے حوالے موجودہ پیشین گوئیاں کیا توجہ دینے کے قابل ہیں؟

ڈالر کے مقابلے میں تین حقائق کا حوالہ دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے، امریکہ کے بڑے حریف چین نے اقتصادی اور کاروباری حجم کے لحاظ سے یورپی یونین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب چین امریکی مارکیٹ پر نظریں رکھے ہوئے ہے۔

دوسرا، امریکہ میں موجود سیاسی تنازعات امریکہ کی انتہائی قابل بھروسہ قرض لینے والے اور قرض دینے والے کے طور پر ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں جس کی ایک مثال گذشتہ ماہ ڈیفالٹ کے خطرے کی صورت میں سامنے آئی۔

تیسرا، امریکہ بہت تیزی سے ان ممالک کو سبق سکھانے کے لیے ڈالرز کا استعمال کر رہا ہے جو اس کے مطابق امریکہ یا اس کے اتحادی ممالک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں، یعنی سادہ الفاظ میں امریکہ براہ راست جنگ میں ملوث ہونے یا کسی ملک پر حملہ کرنے کے بجائے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بے دریغ پیسے کا استعمال کر رہا ہے۔

مگر ڈالر کی ساکھ میں مبینہ کمی کے پیچھے کارفرما یہ تینوں حقائق کچھ اتنے متاثر کن نہیں ہیں۔

گذشتہ ماہ امریکہ ممکنہ ڈیفالٹ سے بچ گیا اور ایسا کرنے سے اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ وہ دنیا کا بنیادی اور قابل بھروسہ قرض دہندہ ہے۔

کیا ڈالر مقبولیت کھو رہا ہے؟
ڈالر کے دو اہم افعال ہیں جو اسے دنیا کی بنیادی کرنسی بناتے ہیں۔

سب سے پہلے، ڈالر ایک ریزرو کرنسی ہے یعنی جس کے پاس اضافی پیسہ ہے وہ اسے ڈالر کی شکل میں محفوظ رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔

دوسرا، ڈالر اکاؤنٹ کی کرنسی ہے اور نہ صرف امریکہ بلکہ بیشتر دنیا کے ممالک اشیا اور خدمات کی ادائیگی ڈالر کے ذریعے کرتے ہیں۔

چین، روس، برازیل، انڈیا اور دیگر ترقی پذیر معیشتوں کی روپے اور یوآن کے ذریعے تجارت کرنے کی کوششوں کے باوجود ڈالر کی بطور سیٹلمنٹ کرنسی پوزیشن اب بھی مضبوط ہو رہی ہے۔

ہم ذیل میں اس کے بارے میں مزید بات کریں گے، لیکن پہلے ڈالر کے اہم کام، یعنی بطور ریزرو کرنسی استعمال، کے بارے میں مزید پڑھتے ہیں۔

گذشتہ سال کے آخر تک دنیا میں تقریباً 12 کھرب ڈالر مالیت کے کرنسی ذخائر جمع ہو چکے تھے۔ اس ریزرو کا تقریباً 60 فیصد امریکی ڈالر کی شکل میں ہے، لگ بھگ 20 فیصد یورو، تین فیصد یوآن جبکہ باقی دوسری کرنسیاں ہیں۔

تاہم، آئی ایم ایف کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ریزروز میں ڈالر کا حصہ کم ہو رہا ہے اور سنہ 1995 کے بعد اس وقت یہ اپنی کم ترین سطح پر ہے۔

ڈالر کے ذخائر میں کمی کی حد اور رفتار پر گرما گرم بحث جاری ہے اور چند ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کے خلاف غیر معمولی مالی پابندیوں کی وجہ سے اس ضمن میں اب حالات بہت زیادہ کشیدہ ہیں۔

مورگن سٹینلے اور آئی ایم ایف میں کام کرنے والے کرنسی ماہر سٹیون لی جین کہتی ہیں کہ ’ڈالر ریزرو کرنسی کے طور پر اپنا مقام پہلے کی سوچ سے کہیں زیادہ تیزی سے کھو رہا ہے۔‘

ان کے اندازے کے مطابق، 2016 سے ڈالر نے ریزرو مارکیٹ میں اپنا حصہ 11 فیصد کھو دیا ہے اور یہ سلسلہ سنہ 2008 کے بعد سے دگنا ہوا ہے۔

تاہم بہت سے دوسرے کرنسی ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے ریزرو کرنسی کی دنیا میں کچھ بھی زیادہ نہیں بدلا ہے۔

کونسل آن فارن ریلیشنزمیں کرنسی کے ماہر بریڈ سیٹسر کہتے ہیں کہ ’میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ درحقیقت 2022 سے ڈالر کے ذخائر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘

ان کے مطابق، آئی ایم ایف کے اعداد و شمار میں ڈالر کے بطور ریزرو کمی کی وضاحت روس کے خلاف پابندیوں کے جواب میں امریکی کرنسی کو ترک کرنے سے نہیں، بلکہ اس اہم اثاثے کی دوبارہ تشخیص سے ہوئی ہے جس میں جمع شدہ ڈالر کے ذخائر محفوظ ہیں، یعنی امریکی حکومت کے بانڈز۔

ان بانڈز کی قیمت گر رہی ہے کیونکہ امریکی قرضے پر شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔ سیٹسر کا خیال ہے کہ 2022 میں، یہ دیگر ریزرو کرنسیوں کو جاری کرنے والے ممالک کے مقابلے میں تیزی سے ہوا، جس کی وجہ سے ذخائر میں ڈالر کا حصہ کم ہوا ہے۔

سیٹسر نے کہا کہ ’اگر آپ امریکی حکومت کے بانڈز کی اس صورتحال کو آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں تو آپ کو ڈالر کہیں بھاگتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ اس کے علاوہ 2022 میں کسی اور بڑی کرنسی کی عالمی سطح پر اتنی مانگ نہیں تھی جتنی ڈالر کی تھی۔‘مالیاتی نظام کے مؤرخ نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ ڈالر کی بالادستی کے خاتمے کے بارے میں نصف صدی سے بھی زیادہ سے بات کی جا رہی ہے۔

اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا سے متعدد مواقع پر یہ سوال پوچھا گیا کہ ’ہر کوئی ڈالر میں تجارت کیوں کرتا ہے، یہ فیصلہ کس نے کیا؟‘

حقیقت یہ ہے کہ یورو کی گردش کے 20 سالوں کے دوران، ڈالر نے عالمی ذخائر میں اپنا حصہ صرف 10 فیصد کھویا ہے، یعنی 21وی صدی کے آغاز میں ذخائر میں اس کا تقریباً 70 فیصد تھا، اور اب یہ تقریباً 60 فیصد ہے۔

اس کا تعلق سٹاک سے ہے، حساب کتاب کی حد تک کچھ نہیں بدلا اور اور ڈالر اب بھی غالب کرنسی ہے۔

بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹسکے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں ڈالر کا حصہ 80 فیصد سے 90 فیصد ہو گیا ہے، گذشتہ ایک دہائی میں بھی یہ مقبول رہا اور 2010 میں ڈالر کا تمام بین الاقوامی ادائیگیوں میں 85 فیصد حصہ تھا جو سنہ 2022 میں بڑھ کر 88 فیصد ہو گیا۔‘

حقیقت یہ ہے کہ ڈالر اکاؤنٹ کی مرکزی کرنسی ہے جس کے باعث اس کی مرکزی ریزرو کرنسی کے طور پر بھی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے، کیونکہ دنیا سمجھتی ہے کہ اس کرنسی کو برے دنوں کے لیے بچانا اچھا ہے۔

اس کے علاوہ، ڈالر میں تمام ادائیگیاں دنیا کے سب سے بڑے امریکی بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہیں، اور امریکی حکام اس کرنسیکی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہر کوئی ڈالر میں تجارت کیوں کرتا ہے؟
اسٹیفن لی جین دلیل دیتے ہیں کہ ڈالر وقت کے ساتھ تصفیہ کی کرنسی (سیٹلمنٹ کرنسی) کے طور پر اپنی جگہ کھو دے گا، تاہم ایسا مستقبل قریب کا معاملہ نہیں ہے۔ وہ زور دیتے ہیں کہ کیونکہ دنیا میں امریکی مالیاتی منڈیوں کا سائز، استحکام یا کھلے پن کے لحاظ سےکوئی متبادل نہیں ہے اس لیے ڈالر کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ س

اس کی واضح مثال تیل ہے۔

انڈیا روسی خام تیل کی ادائیگی روپے میں کر سکتا ہے اور چین سعودی عرب کو تیل کے عوض یوآن میں ادائیگی کر سکتا ہے، مگر اس سب کے باوجود تیل کی عالمی منڈی کی اہم کرنسی اب بھی ڈالر ہے، کیونکہ چند گنے چنے ممالک کی آپسی براہ راست تجارت کی نسبت تیل کے مالی معاہدوں کا حجم کہیں زیادہ ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں صرف چین ہی دنیا کے مالیاتی مرکز کے طور پر امریکہ کو چیلنج کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اسے سامان تجارت کی فراہمی کے مالی معاہدوں کے لیے اپنی کھلی اور لیکویڈ مارکیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔

یہاں تک کہ اگر سعودی عرب، دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک، اپنا سارا تیل دنیا کے سب سے بڑے تیل کے خریدار یعنی چین کو یوآن میں فروخت کرنے پر راضی ہو جاتا ہے، تب بھی عالمی تیل کی منڈی میں شنگھائی انرجی ایکسچینج کا حصہ موجودہ 5 فیصد سے بڑھ کر صرف سات فیصد ہو جائے گا۔

کیا امریکہ ڈالر کی وجہ سے خود بھی خوفزدہ ہے؟
سابق امریکی وزیر خزانہ لیری سمرزکہتے ہیں کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ڈالر نے بطور ریزرو کرنسی پاؤنڈ کی جگہ کیسے لی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’تاریخ واضح ہے: ڈالر ریزرو کرنسی کے طور پر اپنی حیثیت کھو سکتا ہے، لیکن جب ایسا ہو گا تو دنیا کو بہت سے دوسرے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈالر کا اپنی عالمی حیثیت کھو دنیا صرف اس صورت میں ممکن ہو گا جب امریکہ دنیا میں اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کافی نہیں ہے کہ امریکہ دنیا میں ڈالر کی بالادستی کی حمایت کرنا چاہتا ہے یا نہیں کرنا چاہتا۔ ڈالر ایک بین الاقوامی کرنسی کے طور پر زبردست فوائد حاصل کر رہا ہے، جس کی بڑی وجہ بڑی، لیکویڈ اور اچھی طرح سے کام کرنے والی مالیاتی منڈیاں ہیں۔‘

“اگر امریکہ نئی غلطیاں کرتا رہتا ہے اور ماضی کا تجزیہ کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ وقت آئے گا جب دنیا ڈالر سے دور ہو جائے گی۔ بہت سے ممالک پہلے ہی اس سے دور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، اگرچہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔‘

چین یا سعودی عرب جیسے بڑے تجارتی سرپلس والے ممالک کے پاس اپنی بچت محفوظ رکھنے کے لیے اور کچھ نہیں ہے۔ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کو ذخیرہ کرنے کا دنیا میں کوئی آسان اور لیکویڈ متبادل موجود ہی نہیں ہے۔

بعض معروف ماہرین تو یہاں تک دلیل دیتے ہیں کہ ڈالر کی بالادستی خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ دنیا کی اہم ترین ریزرو کرنسی کا اجرا کنندہ ہونا کوئی استحقاق نہیں بلکہ ایک بوجھ ہے۔

ڈالر کے اثاثوں کی مانگ امریکہ کو بڑے تجارتی اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ بیجنگ میں کارنیگی سینٹر کے ایک امریکی ماہر معاشیات مائیکل پیٹس کہتے ہیں کہ ’یہ اچھا نہیں ہے۔‘

’امریکہ میں داخل ہونے والے غیر ملکی سرمائے سے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ صرف بچت کی شکل میں محفوظ ہو جاتا ہے اور ملکی قرض میں اضافہ کرتا ہے۔ مالی منڈیاں صرف ایک حدتک معیشت کی مدد کرتی ہیں، جس کے بعد وہ ملک کے بجائے بینکوں کو فائدہ پہنچانے کا باعث بنتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’کمزور ہوتا ہوا ڈالر عالمی معیشت کو فائدہ دے گا۔ لیکن یہ ان ممالک کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہو گا جن کے پاس تجارتی سرپلس ہے۔‘

کیا ڈالر کا کوئی متبادل ہے؟
مورخ فرگوسن کا اس پر بہت اچھا قول ہے۔ درحقیقت یہ قول وہی ہے جس کے داعی سابق امریکی وزیر خزانہ لیری سمرز تھے جن کے دستخط ڈالر کے نوٹ پر نظر آتے ہیں۔

سمرز نے کہا تھا کہ ’جو کچھ آپ کے پاس ہے اسے آپ اس سے بدل نہیں سکتے جو آپ کے پاس موجود نہیں ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ڈالر کا کوئی متبادل نہیں ہے کیونکہ ’یورپ ایک میوزیم ہے، جاپان ایک نرسنگ ہوم ہے، چین ایک جیل ہے، اور بٹ کوائن ایک تجربہ ہے۔‘

ذخائر رکھنے کے لیے مغربی کرنسیوں کا واحد متبادل یوآن ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے چین کو بہت کچھ بدلنا ہو گا۔ اصلاحات اور شفافیت، بچت کی ترغیبات، سرمائے کی نقل و حرکت کے کنٹرول کے خاتمے کی ضرورت ہے۔ لیکویڈیٹی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ چین اپنی مالیاتی منڈیوں اور سرمائے کی برآمدات دونوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندی لگاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ پابندیاں ہٹا دی جاتی ہیں، تو نجی سرمایہ ان کے دائرہ اختیار میں جائے گا۔

تاہم، ماہرین اقتصادیات تسلیم کرتے ہیں کہ یوآن آہستہ آہستہ ایک ریزرو کرنسی بن سکتا ہے۔ امریکی اور یورپی ماہرین اقتصادیات نے ایک حالیہ تحقیق کے مطابق چین اپنی کرنسی میں تجارتی تصفیوں کو فعال طور پر فروغ دے رہا ہے، اس طرح اس کے تجارتی شراکت داروں کے مرکزی بینکوں میں یوآن جمع ہو رہے ہیں۔

انھوں نے لکھا کہ ’چین کی اپنی کرنسی کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش یوآن کے غلبہ کو یقینی نہیں بنائے گی، بلکہ ایک کثیر قطبی کرنسی کی دنیا جہاں ڈالر، یورو اور یوآن ایک ساتھ موجود ہوں گے۔‘

یہ ٹھیک ہے مگر ایسا ہونا ابھی بہت دور ہے۔ یوآن میں پیسے رکھنے کے قابل ہونا ایک چیز ہے، اس کی خواہش کرنا دوسری چیز۔

دنیا بھر میں ڈالر کی خرید و فروخت کی صلاحیت لامحدود ہے، جبکہ یوآن کی تجارت چین سے باہر صرف ہانگ کانگ اور چند درجن چھوٹے مراکز میں ہوتی ہے۔

مورخ فرگوسن ڈالر، یورو اور یوآن کے درمیان غلبے کی دوڑ کو ’کچھوے کی دوڑ‘ کہتے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے حریف ممالک ہی ڈالر کا متبادل تلاش کر رہے ہیں، ترقی یافتہ جمہوریتوں اور امریکہ کے اتحادیوں کو ڈالر سے بالکل کوئی الرجی نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں