سانحہ مری پر ایسی انکوائری کمیٹی بنائی گئی جسے قانونی پشت پناہی نہیں ہے

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سانحہ مری کی انکوائری کمیٹی سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ اس کمیٹی کو قانون پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔ اس حوالے سے قومی اخبار روزنامہ جنگ میں شائع رپورٹ میں سینئرصحافی انصار عباسی نے بتایا کہ سانحۂ مری کی تحقیقات کیلئے پنجاب ٹریبونل آف انکوائریز کے تحت کوئی کمیشن قائم کرنے کی بجائے صوبائی حکومت نے انتظامی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جسے کوئی قانونی سہارا حاصل نہیں ہے اور یہ صرف فیکٹ فائنڈنگ (حقائق تلاش کرنے والی) کمیٹی ہے۔سرکاری ذرائع کو صوبائی حکومت کی جانب سے انکوائری کمیٹی یا کمیشن بنانے کی بجائے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانے کے اس فیصلے میں سنگین خامی نظر آئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ انکوائری کمیٹی پنجاب ٹریبونل آف انکوائری کے قانون کی بجائے انتظامی آرڈر کے تحت تشکیل دی گئی ہے لہٰذا اس کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی اور قانوناً اس کے پاس شواہد اکٹھا کرنے، گواہوں کو طلب کرنے، ریکارڈ کا جائزہ لینے وغیرہ کا اختیار نہیں ہوگا۔کمیٹی کے شرائطِ کار میں اسے وفاقی حکام کے ساتھ رابطوں کی اجازت تو دی گئی لیکن یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ قانونی جواز کے بغیر صوبائی حکام کس طرح وفاقی حکام کو طلب کر پائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسی انکوائری کمیٹی کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، پنجاب حکومت کے ایک سینئر ذریعے نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ یہ بنیادی طور پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ہے جو مری کے سانحے کے حوالے سے اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کرے گی جس کی بنیاد پر حکومت ڈسپلن اور ایفیشنی رولز کے تحت کارروائی کا آغاز کرے گی۔انصار عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت میں اہم ترین عہدوں پر کام کا تجربہ رکھنے والے ایک سینئر ذریعے نے بتایا کہ چونکہ 22 اموات ہوئی ہیں اس لئے حکومت کو پنجاب ٹریبونل آف انکوائریز کے تحت ایک کمیشن تشکیل دینا چاہئیے تھا۔ قانوناً تشکیل دیا جانے والا یہ کمیشن عموماً اس وقت قائم کیا جاتا ہے جب انسانی جانوں یا جائیداد املاک کا کوئی بڑا نقصان ہوا ہو جس کی تحقیقات مقصود ہوں۔سانحہ مری پر تشکیل دی جانے والی اس انتظامی کمیٹی کو قانونی حمایت حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو طلب کرکے گواہوں کو بیان ریکارڈ کر سکے، نہ ہی کمیٹی کے پاس یہ مینڈیٹ نہیں کہ وہ گورننس کے معاملات پر بحث کر سکے جو لاہور سے جڑے ہیں یا پھر موجودہ وزیراعلیٰ آفس کے کام کاج کا سابقہ وزیراعلیٰ آفس کے کام کاج سے تقابل کرکے دیکھ سکے۔

متعلقہ خبریں