(ق)والوں کوتجویز دے رہے ہیں آپ پارٹی ضم کریں ، عمران خان

لاہور( این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ہم شہباز شریف کو پوری طرح ٹیسٹ کریں گے، ہم صرف اعتماد کے ووٹ لینے کا فیصلہ نہیں کریں گے اس کے علاوہ بھی منصوبے ہیں،اس نے ہمیں ٹیسٹ کیا، اب امتحان کی باری اس کی ہے تو بالکل کریں گے، ہمارا آج اتوار کو اجلاس ہے، اس میں فیصلہ کریں گے کہ کب اعتماد کے ووٹ لینے کا کہیں گے،

اصل قربانی مسلم لیگ (ق) نے دی ہے، ہم ان کو تجویز دے رہے ہیں کہ آپ پارٹی ضم کریں کیونکہ اتحادی سیاست میں بڑے مسائل ہوتے ہیں، میں نے ساڑھے تین سال حکومت کی ہے، میرے لیے سب کو ہینڈل کرنا عذاب تھا، مطالبات ہوتے تھے، ہم انہیں ڈیویلپمنٹ فنڈ دیتے تھے تو ہمارے لوگ ناراض ہو جاتے تھے، میں یہ ہینڈل کرتے ہوئے پاگل ہو گیا تھا۔ایک انٹر ویو میں عمران خان نے کہا کہ بالکل اب ہم شہباز شریف کو پوری طرح ٹیسٹ کریں گے، اس نے ہمیں ٹیسٹ کیا، اب امتحان کی باری اس کی ہے، تو بالکل کریں گے، ہم صرف اعتماد کے ووٹ لینے کا فیصلہ نہیں کریں گے، اس کے علاوہ بھی منصوبے ہیں، ان کو پہلی دفعہ امتحان میں ڈالیں۔انہوںنے کہا کہ جیسے ہی پنجاب اسمبلی تحلیل ہوتی ہے، اس کے بعد ایک ہفتے کے اندر خیبرپختونخوا ہ کی اسمبلی بھی توڑ دیں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے سارے لوگوں سے ملاقاتیں کی تھیں، جائزہ لے رہا تھا کہ ٹمپریچر کیا ہے، ہمارے چیف وہپ کو یقین تھا کہ نمبرز پورے ہوں گے، جب آصف زرداری، سندھ کے چند وزرا ء کے ساتھ نوٹوں کی تھیلیاں لے کر آئے، اس وقت ہمارے کئی اراکین گھبرائے ہوئے تھے۔عمران خان نے کہا کہ جو گمنام نمبروں سے فون کرتے ہیں، یہ بھی دھمکیاں دے رہے تھے، یہ بھی پیشکش کررہے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)میں چلے جائیں، عمران خان پر ریڈ لائن ڈال دی ہے، اب اس نے آنا نہیں ہے، لیکن میں اپنے لوگوں کے ٹمپریچر کا جائزہ لے رہا تھا، پاکستان بدل گیا ہے، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ

اس طرح کے رکن صوبائی اسمبلی اس طرح کا دبائو ڈالا گیا، مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اب جائیں گے نہیں۔انہوںنے کہا کہ 16 جولائی کو پنجاب کے ضمنی انتخابات کا جو نتیجہ آیا ہے، اس سے پاکستان کی پوری سیاست کو شاک ویو گزرا، پنجاب کی سوچ ہوتی تھی کہ جدھر اسٹیبلشمنٹ ہے،

ادھر پنجاب ہے، پنجاب اسٹبیلشمنٹ کے خلاف نہیں کھڑا ہوتا، اس تبدیلی کا اثر پوری پنجاب کی سیاست پر پڑا، اس کا ہمارے سارے اراکین اسمبلی کو بھی پتا تھا کہ اس وقت جو پارٹی چھوڑے گا، وہ اپنی سیاست کا جنازہ نکالے گا، یہ بہت بڑی تبدیلی تھی۔پنجاب اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے سے متعلق

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم رات 10 بجے اندازہ ہوگیا کہ اب ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اعتماد ووٹ لے لیں، مونس الٰہی نے بڑا کردار ادا کیا، وہ سپین سے اپنے اراکین کو فون کررہا تھا کیونکہ آخر میں پاکستان مسلم لیگ (ق)کے اراکین کم تھے، ہمارے پورے ہوگئے تھے۔

(ق)لیگ کے ساتھ اتحاد سے متعلق سوال پر انہوںنے کہا کہ جس طرح چوہدری پرویز الٰہی ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے، ہماری جماعت میں ان کو بڑا سراہا گیا، اصل قربانی تو انہوں نے دی ہے، ہم ان کو تجویز دے رہے ہیں کہ آپ پارٹی ضم کریں کیونکہ اتحادی سیاست میں بڑے مسائل ہوتے ہیں، میں نے ساڑھے تین سال حکومت کی ہے، میرے لیے سب کو ہینڈل کرنا عذاب تھا، مطالبات ہوتے تھے،

ہم انہیں ڈیویلپمنٹ فنڈ دیتے تھے تو ہمارے لوگ ناراض ہو جاتے تھے، میں یہ ہینڈل کرتے ہوئے پاگل ہو گیا تھا۔یہ (ق)لیگ کے بھی مفاد میں ہے کہ یہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑیں لیکن ہم ان کا احترام کریں گے وہ جو بھی فیصلہ کریں۔عمران خان نے کہا کہ جدھر پاکستان پہنچ گیا ہے، اس وقت ایک مضبوط اور طاقتور حکومت کی ضرورت ہے، جو مشکل فیصلے کر سکے، جو ایسے فیصلے کر سکے

جو آج تک کسی نے پاکستان میں نہیں کیے۔بدقسمتی ہے کہ مارشل لا ء بھی لگا، مارشل لا ء کی حکومتیں ملک کو تو ٹھیک کر سکتی تھیں، احتساب، انصاف کا نظام اور اداروں کو تو ٹھیک کر سکتی تھیں، مافیاز کو کنٹرول کر سکتی تھیں۔عمران خان نے کہا کہ مجھے خود کسٹم والے بتا رہے تھے کہ کمزور سے کمزور کوئٹہ کا کلکٹر بھی ایک ارب روپے مہینے کے بناتا ہے، آپ سوچ لیں وہاں اور کتنا پیسہ لوگوں کی جیبوں میں جا رہا ہے، حکومت کمزور ہے، لوگ امیر ترین ہیں۔

متعلقہ خبریں