ہم کہ ٹھہرے امیر ترین خطے کے غریب ترین باسی ۔۔۔ تحریر : علی شیر

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا دارومدار دستیاب قدرتی وسائل پر ہی ہوتا ہے دنیا کے نقشے میں موجود تمام ممالک اپنے دستیاب وسائل پر سرمایہ کاری کے لئے ملکی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش مراعات کے اعلانات کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو یقینی بنوانے کے لئے سرمایہ کاروں کے سرمایہ کو تحفظ فراہم کرنے انہیں ملکی قوانین کے تحت ممتاز حیثیت دینے سرمایہ کاروں کے لئے وضع کردہ قوانین پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ مخصوص وسائل جیسے کہ معدنیات کے حوالے سے خصوصی ایٹ بھی بنائے جاتے ہیں ان تمام اقدامات قوانین پالیسیوں سے انہیں آگاہ کیا جاتا ہے مزید بہتری کے لئے ان سے تجاویز بھی مانگی جاتی ہے مشترک مفادات کو یقینی بنانے کے لئے اعلی سطح اجلاس بھی منعقد کروائے جاتے ہیں تبھی جاکر سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب ہوتے ہیں معدنیات کی جہاں بات کی جائے تو قدرت نے گلگت بلتستان کو اس مد میں بیش بہا زخائر عطا کئے ہیں غالبا دنیا بھر میں معدنی ذخائر سے مالا مال خطوں میں گلگت بلتستان کا شمار 5نمبر ہے
ہمارا المیہ یہ ہیکہ وفاق کی جانب سے متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی نہ صرف وفاق مقامی سیاسی قیادت نے بھی ان وسائل سے خطے کو مستفید رکھنے کے لئے جاندار اقدامات کو یقینی نہیں بنا سکے دستیاب پالیسیوں کی بنیاد پر معدنیات سے وابسطہ سرمایہ کاروں نے مشکل ترین حالات میں ابہام سے بھرپور پالیسیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اقدامات کو فروغ دیا ان ملکی سرمایہ کاروں کو گزشتہ 20 سالوں سے تنازعات میں مقامی کرداروں نے الجھائے رکھا یہاں تک کہ بسا معاملات میں ان کرداروں کو سیاسی کرداروں کی پشت پناہی بھی رہی الجھے ہوئے ملکی سرمایہ کاروں کو دیکھتے ہوئے دیگر سرمایہ کاروں نے گلگت بلتستان کو سرمایہ کاری کے لئے غیر محفوظ سمجھتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ملک کے دیگر صوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی کیونکہ گلگت بلتستان کی بہ نسبت دیگر صوبوں میں انہیں پرکشش مواقعوں کے ساتھ محفوظ سرمایہ کاری یقینی نظر آئی یہ وہ سبجیکٹ تھا جس پر سابق حکومت کو میں نے بحیثیت فرزند گلگت بلتستان تجاویز دی یہاں تکہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل شخصیات پر مشتمل بورڈ آف انویسمنٹ کے قیام کو وقت کی اہم ضرورت کے طور پر پیش کیا یوں سابق حکومت نے بورڈ آف انویسمنٹ کو تشکیل دیا ضرور مگر اس بورڈ کی کیا کارکردگی رہی اس پر کبھی آگاہی دینا گوارہ نہیں سمجھا سرمایہ کاری کو یقینی بنوانے میں جہاں سیاسی کردار خاصے غیر سنجیدہ نظر آئے وہی پر اداریاتی نظام کے زعماء نے بھی اس طرف حکومتوں کی توجہ مبذول کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس کی بڑی وجہ مقامی سیاست دان، سہولت کار اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے معدنیات کی لیزز  اپنے فرنٹ مینوں کو پس پردہ خاموشی اسے الاٹ کئے گئے آج بھی اگر الاٹ کردہ لیزز انکوائری کے لئے ایک آزاد عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے تو ہوشربا انکشافات سامنے آئیں گے کہ کیسے ان وسائل کی بندربانٹ کی گئی
ضرورت اس امر کی ہیکہ ان وسائل کو لوٹنے والے افراد کو بلاتفریق عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے وہی پر موجودہ حکومت کو چاہئیے کہ دستیاب معدنیات پر مقامی، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مائل کرنے کے لئے معدنیات ایکٹ کا ازسر نو جائزہ لے وہ ممالک جو معدنی ذخائر سے مستفید ہو رہے ہیں ان کی پالیسیوں کو جانے اس صنعت سے وابسطہ سرمایہ کاروں کے ساتھ باہمی اعتماد کو یقینی بنانے کے لئے اعلی سطح پر تھینک ٹینک بنائے جن کے ذمے معدنیات کے حوالے سے بہترین جامعہ پالیسی مرتب کرنے کے ساتھ دنیا بھر میں گلگت بلتستان معدنی ذخائر کو اجاگر کرنا سرمایہ کاروں کو اس طرف مائل کرنے میں کردار ادا کرنے کے ساتھ مانیٹرنگ بھی کرنا کہ آیا پالیسی کے مطابق سرمایہ کاروں کو بروقت مواقعوں کے ساتھ ان کے سرمایہ کو تحفظ فراہمی کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ نہیں اس ضمن میں موجودہ وزیراعلی گلگت بلتستان سے میں بہت زیادہ پرامید ہوں چونکہ ان کا ایک ہی فلسفہ ہے وہ یہ کہ کسی بھی خطے میں خوشگوار تبدیلیاں تب تک رونماء نہیں ہوسکتی جب تک حکومتیں اس خطے کے باشندوں پر براہ راست سرمایہ کاری نہیں کرتی ہمارا تعلق امیر ترین خطے سے ہے کیونکہ ہم پر قدرت بہت مہربان ہے ضرورت اس امر کی ہیکہ ہمیں یہ تعین کرنا ہوگا کہ ہم قدرت کی عطاء کردہ زخائر سے کیسے مستفید ہوسکتے ہیں میرا مشورہ ہیکہ دبئی ایکسپو پر شرکت سے پہلے ہنگامی بنیادوں پر دستیاب معدنی ذخائر پر سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھانے کے لئے بہترین ہوم ورک کیا جائے
قطعہ نظر اس کے کہ گلگت بلتستان معدنیات کے حوالے سے موجود ایکٹ عوامی خواہشات کے عین مطابق ہے یا نہیں آیا یہ ایکٹ گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں کی منشاء کیمطابق تیار کیا گیا ہے کہ نہیں یا پھر یہ ایکٹ وفاق نے گلگت بلتستان کے ساتھ مشترکہ مفادات کے تناظر میں تیار کیا تھا یا محض صرف وفاق کے مفادات کے تحت تیار کیا گیا تھا دیکھنا یہ ہیکہ اس میں کہاں کہاں ابہام پایا جاتا ہے ان کو دور کرنے کے لئے ماہرین کی خدمات لی جائے اگر ہمارا یہی وطیرہ رہا جیسے کہ گزشتہ 20 سالوں سے ملکی سرمایہ کاروں کو ہم نے شدید مشکلات میں مبتلاء رکھا ہے تو پھر شاید ہی ہم کبھی اپنے دستیاب وسائل کی بنیاد پر اپنے لوگوں کو خوشحالی کی طرف لے جاسکے یہ تب تک ممکن نہیں جب تک جرات مندانہ فیصلوں کو فروغ نہیں دیتے کرپٹ عناصر کو بےنقاب کرتے ہوئے انہیں عدالتی کٹہروں میں کھڑا کرنا لازم ہے آج کی اس تحریر کا موضوع سخن میں جرات مند قیادت کا زکر بھی لازم ہے ضلع ہنزہ ناصر آباد معدنی ذخائر تقسیم سے دو کمپنیوں کے مابین کھڑے ہونے والے تنازعہ پر اب تک کا تحقیقاتی مشاہدہ پیش کرنا بھی ہے میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ تحقیقی مضامین پر ہی قلم کا استعمال رکھوں چونکہ یہ معاملہ یہ تنازعہ بھی تحقیقی تھا اسی لئے پیشہ وارانہ اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تنازعہ کی موجودہ صورتحال، تاریخی پس منظر کا بغور جائزہ لینے کی کوشش کی اس تنازعہ سے جڑے دستاویزات تک رسائی حاصل کرنے کے بعد جو کچھ میں نے اس تنازعہ کے پس منظر میں دیکھا اس سے قارعین کو آگاہ کرنا لازم جانا میرا ماننا ہیکہ محبت، امن ہی کائنات کی مادری زبان ہے ادھورا سچ ہمیشہ خطرناک ثابت ہوتا رہا اور ایسے میں مخصوص ذہنیت کے حامل چند کردار اس ادھورے سچ کو معاشرے میں خود ساختہ تشریح کے ساتھ جب پیش کرتے ہیں تو ایسے میں ان کا یہ عمل معاشرے میں انتشار ہی کا سبب بنتا ہے جس کا مظاہرہ ان دنوں ضلع ہنزہ ناصر آباد معدنیات کے حوالے سے نظر آ رہا ہے
گزشتہ روز بابا جان کی سربراہی میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر سول سوسائٹی کی جانب سے ہونے والے احتجاج سے میں نے محسوس کیا کہ یہ تنازعہ انسانی معاشرے میں نفرتوں کا باعث بن رہا ہے ان نفرتوں کے پس منظر کے محرکات وہ حقائق جنہیں مسخ کیا گیا جنہیں چھپایا جا رہا ان حقائق سے پردہ چاک کرنا میں نے ضروری سمجھا
اس تنازعہ کے دو ہی فریق ہیں الناصر ملٹی پرپز اور مہمند دادا معدنیات کمپنی مہمند دادا دو بڑے سرمایہ کار کمپنیوں کا مشترک نام ہے مہمند اور دادا اردو میں یہ دونوں کمپنیوں کا اشتراک صرف معدنیات کی صنعت تک ہے چونکہ مہمند معدنیات کی صنعت سے وابسطہ ایک بڑی کمپنی ہے جو کہ اس شعبے مین وسیع تجربہ رکھتی ہے  مہمند دادا معدنیات کمپنی اور الناصر ملٹی پرپز کمپنی کو محکمانہ قوانین کی روشنی میں لیز حدود آلات کی گئی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ الناصر ملٹی پرپز کی جانب سے مہمند داد معدنیات پر اورلیپنگ کے الزامات سامنے آئے متعدد فورمز، عدلیہ سے لیکر محکمانہ زعماء تک تحریری شکایات پیش کی گئی معاملہ کی جانچ پڑتال کے لئے دی گئی درخواستوں کی بنیاد پر ماضی میں تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی گئی جنہیں پابند کیا گیا کہ وہ تنازعہ حدود میں میں جا کر ڈیمارکیشن کے ساتھ دیگر پہلوؤں سے بھی جائزہ لیتے ہوئے رپورٹس مرتب کرتے ہوئے اعلی حکام کو پیش کریں ان کمیٹیوں میں اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر سمیع الہ فاروق بھی شامل تھے کمیٹیوں نے اپنا کام مکمل کیا اور مرتب کردہ رپورٹس اعلی حکام کو پیش کرتے رہے دوسری انکوائری کمیٹی میں غزر سے تعلق رکھنے والے سابق سیکریٹری حفیظ الرحمن کے فرزند کمال خان جو کہ ڈپٹی کمشنر تھے حفیظ صاحب اور کمال خان کی دیانت اور قابلیت کی ایک دنیا قائل ہے کی تحقیقاتی رپورٹس میں عائد کردہ الزامات کو بےبنیاد قرار دیا گیا

مگر یہ تنازعہ جوں کے توں ہی رہا یہاں تک 2016 میں یہ بازگشت اس وقت کے وزیراعلی گلگت بلتستان تک پہنچی ان تک یہ الزامات پہنچائے گئے جس پر انہوں نے متعلقہ حکام سے وضاحت مانگی تو انہوں نے کمیٹیوں کی رپورٹس سے آگاہ کیا باوجود اس کے وزیراعلی گلگت بلتستان نے پھر سے تحقیقات کے لئیے حکم صادر کیا ان کے احکامات کی بنیاد پر اس معاملے کا ازسر نو جائزہ لینے کے لئے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی اس کمیٹی نے بھی عائد کردہ الزامات پر تحقیق شروع کی موقع پر جا کر ڈیمارکیشن کے ساتھ تمام زاویوں سے جائزہ لیا گیا اور انکوائری عمل کو مکمل کرتے ہوئے رپورٹ اعلی حکام کو پیش کی گئی ان رپورٹس کی بنیاد پر  24جولائی 2018 کو محکمہ ہذا کی جانب سے ایک لیٹر جاری ہوا جس میں تمام تر حقائق کو پیش کرتے ہوئے مزکورہ کمپنیوں کو ہدایات بھی جاری کی گئی لیٹر میں کیا لکھا ہوا تھا اردو میں آپ کے لئے وہ نکات پیش کررہا ہوں
متن

مجاز اتھارٹی کو MILC ڈیپارٹمنٹ کی پہلے سے حتمی رپورٹس اور موقف کی روشنی میں فوری کیس میں آگے بڑھنے کی ہدایت  جس میں واضح اور مضبوطی سے کہا گیا ہے کہ کمپنی مہمند دادا معدنیات کو الاٹ کردہ کمانڈ ایریاز کی حدود کے درمیان کوئی اوورلیپنگ نہیں ہے مہمند  دادا کمپنی اور  الناصر ملٹی پرپز کوآپریٹو سوسائٹی ہنزہ ان دونوں کمپنیوں کو لیز کی مد  میں دئے گئے علاقوں میں کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں، مزید برآں، AMCS کی طرف سے MDM کی مائننگ لیز (M/L) کو منسوخ کرنے اور MDM کے پہلے سے الاٹ شدہ رقبہ کا کچھ حصہ اسے دینے کا مطالبہ قانون کے دائرہ کار سے باہر ہے
فیصلے  میں  واصح  ہدایات تھی کہ پہلے سے الاٹ شدہ کمانڈ ایریاز میں کام شروع کریں کیونکہ مجاز فورم کی طرف سے جاری کردہ M/L کی شرائط کے مطابق الاٹ شدہ علاقوں میں کوئی اوور لیپنگ نہیں ہے۔  بار ہا کی انکوائریوں کی بنیاد پر اس لیٹر میں یہ بھی واضح طور پر لکھا گیا کہ مزید  یہ کہ مستقبل میں حکومت گلگت بلتستان سے الاٹ شدہ رقبہ کی اوور لیپنگ کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی جائے گی کیونکہ دو اعلیٰ سطحی انکوائریوں میں پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ M/S مہمند دادا منرلز (پرائیویٹ) کی حدود کے درمیان کوئی اوور لیپنگ نہیں ہے۔ ( مزکورہ دونوں کمپنیوں کو الاٹ کردہ حدود کے نقشے کی کاپیاں بھی منسلک کی گئی) مزید انکوائریاں محض وقت کا ضیاع ہی ہوگا

ان تمام تر متعدد بار کی تحقیقاتی کمیٹیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر چیف سیکرٹری گلگت بلتستان  نے واضح طور پر ہدایات جاری کی اب اس معاملے میں مستقبل میں کسی قسم کی کوئی درخواست شکایت اس بابت تسلیم نہیں کی جائے گی

ماضی میں کی گئی تحقیقات مین یہ  انکشاف بھی ہوا کہ الناصر ملٹی پرپز کمپنی الاٹ شدہ حدود سے باہر غیر قانونی کان کنی کی سرگرمیوں میں ملوث پائی  گئی خصوصاً مہمند دادا منرلز کے الاٹ کردہ علاقے میں سے ماربل نکالنے اور کان  کنی کے لے نقل و حمل کو اسان بنانے کے لیے دھماکہ خیز مواد کا استعمال بھی غیر پیشہ وارانہ انداز میں کیا گیا

الناصر ملٹی پرپز کوآپریٹو سوسائٹی کو 23 فروری 1990 کو 640 ایکڑ سے زائد ماربل کے لیے مائننگ لیزضلع ہنزہ کے علاقے نصیر آباد میں تھلداس نالہ کے مقام کی جاری کی گئی جس کی بعد میں ایک بار  تجدید کی گئی میری معلومات کیمطابق  2014 سے لیکر آج تک مزکورہ کمپنی نے محکمہ معدنیات کی جانب سے الاٹ کردہ حدود میں کان کنی کی کوئی سرگرمی ہوئی ہی نہیں مزید یہ کہ غیر قانونی مائننگ میں ملوث پائے جانے پر الناصر پرپز کو محکمہ کی جانب سے ان پر دو مرتبہ جرمانہ عائد کیا گیا 20000 اور 90000 کے جرمانے جو انہوں نے جمع نہیں کروائے اور نہ ہی بھیجے گئے نوٹسز کے جواب دیے.
ممکن ہیکہ میری یہ معلومات غلط ہوں مگر ماضی میں ایسا کبھی ہوا نہیں کہ میرے حاصل کردہ معلومات غلط ثابت ہوئی ہوں

معاملہ صرف یہاں تک نہیں کہ مزکورہ کمپنی نے حاصل کردہ لیز حدود میں کام کا آغاز نہیں کیا یہاں کہ مزکورہ کمپنی نے مختلف انداز سے مہمند داد معدنیات  کمپنی کے پاس موجود لیز حدود تک رسائی سمیت کان کنی کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش بھی کی گئی جب بھی مہمند دادا کمپنی کو اپنی حاصل کردہ لیز پر کام کرنے کے مواقع انتظامیہ نے فراہم کئے تو ان کے خلاف مزاحمت کی گئی اس غیر قانونی اقدامات ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے پر محکمہ ہذا کی جانب سے بار ہا تنبیہ کی گئی کہ آپ کا یہ عمل مکمل طور پر غیر قانونی ہے آپ کا یہ عمل ریاستی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے ریاستی رہٹ کو چیلنج کے مترادف ہے اور اس عمل سے حکومت کے خزانے کو جہاں نقصان پہنچ رہا ہے وہی پر لیز ایکٹ کے تحت مقامی کمیونٹی کے رائٹس بھی شدید متاثر ہورہے ہیں لیز ایکٹ کے تحت حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ کمیونٹی کے فلاح و بہبود پر مختص ہوتا ہے المیہ یہ ہیکہ ان سنگین نوعیت کے اقدامات پر ماضی میں محکمانہ زعماء کی جانب سے سخت اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا اسی لئیے پس پردہ حقائق بھی سامنے نہیں آئے موجودہ سیکرٹری معدنیات آصف الہ صاحب نے جب محکمانہ چارج سنبھالا تو میری معلومات کیمطابق انہوں نے سب سے پہلے تنازعات کی شکار لیزز کو قوانین کی روشنی میں درست سمت پر لانے کی کوشش کی جن میں نگر اور چند ایک دیگر مقامات بلخصوص شگر میں موجود Mica لیز جو کہ گزشتہ 27 سال سے تنازعہ کی نظر تھی کو حل کیا مائیکیا یہ وہ دھات ہے جس کی دنیا بھر میں مانگ ہے عالمی منڈیوں میں اس دھات کے حصول کے لئے سرمایہ کار بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتے ہیں یہ دھات کیا ہے مختصراً اس کی تعریف یہ ہیکہ مائیکیا ایلومینیم یا پوٹاشیم وغیرہ کے ہائیڈروس سلیکیٹس پر مشتمل مختلف معدنیات میں سے کوئی بھی ایسی شکلوں میں کرسٹلائز ہوتا ہے جو بہت پتلی پتیوں میں کامل درار کی اجازت دیتا ہے بجلی کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے ڈائی الیکٹرکس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تاریخ میں پہلی بار سیکرٹری معدنیات نے جرات مند انداز کے ساتھ ان تنازعات کو حل کرنے کے بعد ناصر آباد معدنیات کے اس تنازعہ پر کام شروع کرتے ہوئے تمام تر انکوائریز رپورٹس کی روشنی میں تشریح کردہ قوانین کے مطابق اقدامات اٹھانے جارہے تھے جس بابت مخصوص ذہنیت کے حامل ان افراد کو خبر ہوئی تو وہ ایسے میں ایک وفد کی شکل میں سیکرٹری معدنیات سے ملنے ان کے دفتر پہنچ گئے سیکرٹری معدنیات نے اس معاملے پر انہیں اعتماد میں لینے کی غرض سے سمجھانے کی کوشش کی کہ چونکہ ماضی کے فیصلوں میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہیکہ اب ان لیزز پر مزید کوئی انکوائری نہیں ہوگی باوجود اس کے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ کو لگتا ہیکہ انکوائریز رپورٹس میں ابہام پایا جاتا ہے تو آپ آئیں ہم اس  معاملے کو ازسر نو دیکھتے ہیں تاکہ ریاست اور مقامی کمیونٹی کو معاشی نقصان سے بچا سکیں اور ان لیزز پر قانون کے مطابق جن کا حق بنتا ہے وہ اپنا کام شروع کرے، آپ کا بار ہا قوانین کی خلاف ورزی کرنا کسی دوسرے کے حق کو سلب کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کرنا ریاست اور مقامی کمیونٹی کو جان بوجھ کر معاشی نقصان پہنچانا یہ ریاستی دائرہ کار میں مداخلت اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اور ہمیں ایسے کسی بھی عمل کو ترک کرتے ہوئے تشریح کردہ قوانین کی روشنی میں اپنے جائز حق کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئیے ماضی کی بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں بلوچستان سے لیکر وزیرستان تک جہاں ریاستی معاملات میں مسلسل مداخلت اور ریاستی رٹ کو غیر آئینی انداز سے چیلنج کیا گیا تو ویاں پھر ریاست نے اپنی رٹ منوانے کے لئے طاقت کا استعمال کیا جس سے صرف تباہی ہی نے جنم لیا یہ وہ گفتگو تھی یہی وہ خودساختہ تشریح کردہ ادھورا سچ تھا جسے عوام کے سامنے اس انداز میں پیش کیا گیا کہ جس سے عوام کے ذہنوں میں آصف الہ کے خلاف نفرت جنم لے اور ایسا ہی ہوا کہ آج ان مخصوص کرداروں جو کہ غیر قانونی اقدامات میں ملوث تھے ان تمام حقائق کو عوام کے سامنے آنے سے روکنے کے لئے عوام کے سامنے خودساختہ تشریح کردہ ادھورا سچ اس طرز پر پیش کیا عوام کو یہ لگا کہ سیکرٹری معدنیات نے ناصر آباد کے باشندوں کو دھمکی دی اب جب اس معاملے کو حکومتی بنچ میں بیٹھے افراد نے بھی دیکھنا شروع کیا تو ایسے میں اسی شر پھیلانے والے وفد میں سے ایک شخص نے مشیر معدنیات الیاس صدیقی صاحب کے روبرو اعتراف کیا کہ آصف الہ صاحب نے ہمیں دھمکایا نہیں تھا وہ ہمیں ریاست سے ٹکراؤ کے نتائج کے حوالے سے مثالیں پیش کرتے ہوئے ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ غیر قانونی اقدامات سے اجتناب کرے یہی وہ ہمارا المیہ ہے یہی وہ ہمارا مجرمانہ کردار ہیکہ ہم اپنے وسائل ہی پر خود ڈاکا مارتے ہیں ان وسائل سے نہ خود مستفید ہوتے ہیں اور نہ ہی ملکی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہے سالہا سال سے اپنایا گیا یہی وہ مزاج ہے جس کی پشت پناہی سیاسی کرداروں نے بھی کی حکومتوں نے خاموشی صاد رکھی اور انتظامی امور کے زمہ داران نے بھی آنکھیں چرائے رکھی کچھ نے تو بہت گنگا میں ہاتھ صاف کئے ان تمام کرداروں اور مجموعی طور پر باشندگان گلگت بلتستان کی غیر سنجیدگی نے ہم اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ آج ہم دنیا بھر میں امیر ترین خطے کے غریب ترین لوگ جانے جاتے ہیں

میری وزیراعلی گلگت بلتستان سے گزارش ہیں کہ لیز ایکٹ کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اسے دور حاضر کے سرمایہ کاری مزاج کے تحت تشکیل دیتے ہوئے تمام تر جاری کردہ لیزز پر عدالتی کمیشن کے زریعے تحقیقات کرائی جائے کہ آیا لیز مالکان پیشہ وارانہ مہارت رکھتے ہیکہ نہی مزید برآں یہ کہ الاٹ کی گئی لیزز پر اب تک کام کیوں نہیں ہوا ان تمام لیزز کو منسوخ کرتے ہوئے اس شعبے سے وابسطہ اداروں کو ہی لیزز الاٹ کی جائے۔

متعلقہ خبریں