صدارتی نظام کی بازگشت ۔۔۔ فیصل اظفر علوی

ملک بھر کے سیاسی ماحول میں اس وقت سب سے زیادہ چہ مگوئیاں صدارتی نظام حکومت کے بارے میں ہو رہی ہیں۔ ٹویٹر پر گزشتہ کئی روز سے ’’ملک کی بقا صدارتی نظام‘‘ ٹاپ ٹرینڈ کے طور پر چل رہا ہے جو یقینا صدارتی نظام کے حامیوں کی جانب سے قومی ذہن سازی کی ایک کڑی ہے۔ کئی یار دوست صدارتی نظام کو غیر جمہوری نظام سمجھتے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں، صدارتی نظام کا شمار بھی جمہوری نظام میں ہی ہوتا ہے۔ ملک میں صدارتی نظام کیلئے آواز اٹھانے یا جدوجہد کرنے سے قبل صدارتی طرز حکومت کیا ہے اور پارلیمانی نظام کی نسبت اس میں کیا فرق ہے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔صدارتی نظام حکومت کی تین آزاد اور مربوط شاخوںیعنی قانون سازی ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کو الگ کرنے اور بانٹنے پر مبنی ہوتا ہے۔جمہوری صدارتی نظام کی سب سے بہترین اور بڑی مثال ریاستہائے متحدہ امریکہ ہے۔یہ ایک ایسا ماڈل ہے جس کی صحیح معنوں میں پیروی صرف چند دیگر جمہوری ریاستوں ، جیسے ارجنٹائن ، برازیل ، میکسیکو اور فلپائن میں کی جاتی ہے۔جمہوریہ کی پارلیمانی شکل کے برعکس صدارتی نظام میں صدر ایک مضبوط اور آزاد چیف ایگزیکٹو ہے جس کے پاس وسیع اختیارات ملکی ، داخلی امور اور خارجہ پالیسی دونوں سے متعلق ہیں۔صدارتی نظام حکومت میں طاقت کا منبع صدر مملکت ہوتا ہے یعنی اس نظام میں تھوڑی سی آمرانہ جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ صدر کا انتخاب براہ راست عوام کرتے ہیں ، صدر اپنی کابینہ تشکیل دے کر معاملات کو چلاتا ہے اور اکثر پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہوتا۔
پاکستان میں جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے وقفے وقفے سے صدارتی نظام کی خبریں گرم رہتی ہیں۔اس مرتبہ تو صدارتی نظام کی حمایت اور آگہی یعنی (سبز باغ) دکھانے کیلئے بڑے ٹیلی ویژن چینلز پر اشتہارات بھی چلائے گئے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عمران خان کے حامی ملک میں صدارتی نظام کو رائج اور عمران خان کو بطور صدر پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔تمام تر قیاس آرائیوں کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک میں صدارتی نظام رائج ہو سکتا ہے یا نہیں۔پاکستان کا طرز حکومت وفاقی پارلیمانی ہے اور صدارتی طرز حکومت کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ہاں اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس اکثریت ہو، تو آئین میں ترمیم کے ذریعے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آئینی ترمیم کے بغیر نظام کو بدلا نہیں جا سکتا۔ موجودہ صورت حال میں مجھے نہیں لگتا کہ ایسا قطعی طور پر ممکن ہے۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی صدارتی نظام کیخلاف موثر آواز اٹھائی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں بلاول زرداری نے تو باقاعدہ ’’دھمکی‘‘ بھی دی ہے کہ’’اگر ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کی کوشش کی تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا‘‘ ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدارتی نظام حکومت پاکستان کو دگرگوں حالات سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دے گا؟ ماضی میں بھی تو مخلوط صدارتی نظام رہے ، کیا اس وقت حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ بنے تھے یا صرف زمینی خدائوں کی خدائی کا بھرم رکھنے کیلئے تھے؟ بقول حمزہ حامی
ہم نے رکھا ہے خدائوں کی خدائی کا بھرم
ہم نے آخر میں خدائوں کی تراشی آنکھیں
2016 میں سینئر صحافی و نامور کالم نویس برادرم مظہر برلاس کے ہمراہ میری بنی گالہ میں خان صاحب سے ایک گھنٹے کی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ خان صاحب مرکزمیں اس وقت چونکہ اپوزیشن میں تھے تو انتہائی پر عزم دکھائی دے رہے تھے کہ اگلی حکومت ان کی ہوگی ۔ان کا یہ عزم دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ مکمل تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ 2017 میں تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کے ابتدائی 100 دنوں کا ایجنڈا پیش کیا گیا۔ برلاس صاحب کے حکم پرہی اس میںبھی شرکت کی ۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ عمران خان کچھ کر دکھانے کا ویژن رکھتے ہیں ۔اللہ نے خان صاحب کی سنی اور وہ اقتدارمیں آ گئے لیکن مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک سال تک تو سمجھ ہی نہیں پائے کہ حکومت چلانی کیسے ہے۔ اب شاید خان صاحب کو شدت سے احساس ہو رہا کہ ان کا اقتدار ڈانوا ڈول ہے ۔ اگلے انتخابات میں عوام کے پاس جاکر ووٹ مانگنے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں۔ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام کا رائج ہونا عمران خان کی بھی خواہش ہو۔ اقتدار کے ایوانوں سے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اب عمران خان صاحب بھی ’’سوچنے‘‘ پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایوانی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان ڈیلیور کرنا چاہتے ہیں لیکن تمام تر کاوشوں کے باوجود کر نہیں پا رہے۔ اگر خان صاحب نے اب عام آدمی کے بارے میں سوچنا شروع کر ہی دیا ہے تو انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جووزیر اعظم پاکستان کو’’ڈیلیور‘‘ نہیں کرنے دے رہے۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ملک میں نظام حکومت کو بدلنے کی بجائے اس میں پائی جانے والی خامیوں اور موشگافیوں کو ختم کیا جائے۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ عام آدمی جسے پہلے دو وقت کی روکھی سوکھی میسر تھی اب اس کے قابل بھی نہیں رہا۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ان کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کو چھ گیندوں پر 8 چھکے پڑ چکے ہیں جن میں سے 2 نو بالز ہیں۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ وہ ’’کٹھ پتلی‘‘ بنے ہوئے ہیں اور ’’بلیک میل‘‘ ہونے کی وجہ سے ڈیلیور نہیں کر پا رہے۔ انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ عام شہری اب ان کی تجربہ گاہ کی مزید بھینٹ نہیں چڑھ سکتا۔خان صاحب کواپنے اردگرد نظر دوڑانی چاہئے اور دوستوں کے روپ میں چھپے دشمنوں سے جان چھڑانی چاہئے۔ آخر میں اقبال طارق صاحب کا شعر کہ
آج پھر آستین دیکھی اور
آج پھر دوست یاد آئے مجھے
(بشکریہ: نوائے وقت)

متعلقہ خبریں