کتاب :اقتدار کی مجبوریاں۔۔ ریٹائرڈجنرل مرزااسلم بیگ۔۔۔ تحریر: میر افسر امان

کتاب ’’اقتدار کی مجبوریاں ‘‘ریٹائرڈ جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات ہے۔ ریٹائرڈ کرنل اشفاق حسین جو کئی ایسی ہی کتابوںکے مصنف ہیں، نے کئی مہینوں پر مشتمل ملاقاتوں کے دوران تفصیلی گفتگو سے مرتب کی ہے۔ اس سے قوم کو بہت سے چھپے ہوئے واقعات سے آگائی ہوئی۔ یہ کتاب ہمیںبک ایٹ ہوم کے زاہد محمودصاحب نے تحفتاً بھیجی ہے۔ اس کتاب پر آج کا تبصرہ مقصود ہے۔
مرزا اسلم بیگ آبائو اجداد کا تعلق چیچینا سے تھا۔ تیرھویں صدی عیسوی میں ازبکستان کی وادی فرحانہ جو مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کی جائے پیدائش ہے میں آباد ہوئے۔’’ مرزا ‘‘اور’’ بیگ ‘‘ کے سابقے اور لاحقے انہی دنوں کی یاد گار ہے۔’’مرزا‘‘ فارسی کے لفظ میرزادہ‘‘ کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے کسی شہزادے کا بیٹا ۔ ’’بیگ ‘‘ترکی کا لفظ ہے جو انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔مرزا اسلام بیگ بھارت کے اعظم گڑھ سے اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان ۱۷؍اگست ۱۹۴۹ء کو ایک بحری جہاز کے ذریعے کراچی تشریف لائے۔ پانچ ماہ بعدپاک فوج میں کیڈٹ بھرتی ہوئے ۔سپیشل سروسز گروپ عرف عام میںکمانڈوبنے۔مشرقی پاکستان میں تعینات رہے۔آٹھ سالوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں دس پوسٹینگ کا ریکارڈ قائم کیا۔چیف آ ف جنرل سٹاف بنے۔وائس چیف آف آرمی سٹاف پر ترقی ہوئی۔پھر چیف آف آرمی اسٹاف بنے۔ مرزا اسلم بیگ خوش قسمت اور اس وقت کے واحد جنرل ہیں کہ انہوں نے کسی خیر ملکی ادارے سے فوجی تربیت حاصل کرنے کے بجائے اپنے پاکستان کی ملٹری اکیڈمی کا کول سے تربیت حاصل کی۔
کتاب کا نام تجویزکرنے پر ایک دلچسب بات کی تحریر کی جو سبق آموز اور پاکستانی جنرلوں کی سیاست سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔جنرل ضیا ء الحق کی شہادت کے بعد موقع ملنے کے باوجود مارشل لاء نہیںلگایا۔ اقتدار پاکستان کے آئین کے مطابق اُس وقت کے سینیٹ کے چیئرمین کے حوالے کر دیا۔اس پر وزیر اعظم پاکستان بے نذیر بھٹو نے جمہوریت کے تغمے سے نوازا۔
کتاب کے عنوان کے بارے کہتے ہیں کہ اس تلاش میں تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے یہ الفاظ ذہن میں بار بار آتے رہے ’’ اقتدار کی کچھ مجبوریاں ‘‘ ہوتی ہیں۔لکھتے ہیںکہ جنرل محمد ایوب کی مجبوری تھی کہ اقتدار جنرل یخییٰ کے حوالے کیا۔(باب نہم صفحہ ۲۷۱) اس کی سب سے بڑی وجہ سیاستدانوں پر عدم اعتماد تھا کہ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے نے مستعفی ہو کر اقتدار جنرل یخییٰ کے سپرد کیا۔ جنہوں نے مارشل لاء قائم رکھا۔ جنرل یخییٰ کی مجبوری تھی کہ وہ ۲۳ مارچ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کی اجلاس کا اعلان کر کے وعدے سے منحرف ہو گئے۔(باب نہم صفحہ ۲۶۶)۱۹۷۰ء میں جنرل یخییٰ خان نے انتخابات کرائے ۔شیخ مجیب کو مشرقی پاکستان میں واضع اکژیت ملی۔ ۳ مارچ کو ڈھاکا میں اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا۔ مغربی پاکستان آ کر اعلان سے پھر گئے۔مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی ۔ اور وہ ہم سے علیحدہ ہو گئے۔ جمہوریت کا مطلب ہی اکثریت کی رائے کا احترام ہے ’’ یعنی ووٹ کا تقدس۔
َ جنرل ضیا ء الحق کی مجبورئی تھی کہ انہوں نے اپنے وعدے کے خلاف بھٹو کے موت پر دستخط کر دیے۔جب بھٹو کے متعلق بات ہوئے تو لکھتے ہیں کہ میں نے کہا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینا بہت ہی غلط فیصلہ ہو گا۔ سیاسی پیچیدگیاں پیداہوں گی۔ سنبھالنا مشکل ہو گا۔ پنجاب اور سندھ کے درمیان نفرتیں بڑھیں گی۔بہتر ہوگا کہ بھٹو کو جلاوطن کر دیا جائے۔ یاسر عرفات، شاہ فیصل،کرنل قذافی اور متحدہ امارات کے حکمران اس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں۔میری باتوں سے کور کمانڈر ناراض ہوگئے۔ اورجنرل حمید گل کے ذریعہ اُوپرپیغام پہنچایا کہ میں ایسے آفیسر کو اپنی فارمیشن میں نہیں رکھ سکتا؟۔مگرچند ماہ بعد مجھے جنرل ضیاء الحق نے چیف آف جنرل سٹاف تعینات کر دیا۔ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق نپولن جیسی فہم و فراست کے مالک تھے۔ جو خود پر تنقید کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ( باب چہارم صفحہ ۱۱۱)اسی طرح جنرل ضیاء الحق کی مجبوری تھی کہ ہمارے سفارشات کے باوجود انہوں نے اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل نہیں کیا۔( باب پنجم صفحہ ۱۴۰) ۱۹۸۵ء کے بعد ایک بار پھر۱۹۸۸ء میں جنرل ضیاء نے مجھے اور جنرل حمید گل کو کہا کہ رپورٹ تیار کرو کہ’’ نئے سیاسی نظام میں ترجیحات کیا ہونا چاہییں، جو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو‘‘۔اس رپورٹ کو میں نے جنرل ضیاء الحق کے سامنے پڑھا ’’ اللہ آپ پر مہربان ہے۔ ۱۹۸۵ء میںاللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع دیا تھا کہ آپ تاریخی فیصلہ کرتے لیکن آپ کی ترجیحات کچھ اور تھیں۔ اب دوسری بار اس کا کرم ہے کہ آپ ایک تاریخی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ الیکشن کرایئے اور اقتدار سے الگ ہو جائیے۔ تاریخ آپ کو ایک ((benovelent ڈکٹیٹر کے نام سے یاد کرے گے‘‘بولے’’ آپ نے بہت صحیح کہا لیکن اقتدار کی کچھ مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ فی الوقت یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے‘‘
جنرل پرویز مشرف کی مجبوری تھی کہ کہ وہ غیروں کے ساتھ مل کر افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئے۔( باب ہشتم صفحہ ۲۳۰)جنرل پرویز مشرف کے امریکی جنگ میں شامل ہونے پر جب مشورہ کیا تو جنرل اسلم بیگ نے اپنے رائے دی کہ’’ آپ نے جو فیصلہ کیاوہ بدترین ہے جس کی کوئی منطق ہے نہ جواز اور نہ کوئی قانون کے تحت اسے درست کہا جا سکتا ہے۔اس فیصلے کے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لیے مہلک ثابت ہو نگے۔ ایک بردادر ملک کے خلاف غیروں کے ساتھ مل کر جنگ میں شامل ہونا بے غیرتی ہے‘‘ ایک ریڈلائن مقرر کریں کہ اس سے آگے امریکا کی حمایت نہیں کی جا سکتی‘‘ جہاں موجود لوگوں کی سوچ ہے کہ طالبان ہار جائیں گے غلط ہے؟ طالبان جیسے روس سے جیتے تھے اسی طرح امریکا اور اس کے اتحادیوں سے بھی جیتیں گے اور امریکا اور اس کے اتحادی ہاریں گے ۔ اس پر سب ہنس پڑے‘‘ یہ طویل جنگ ہو گی ۔امریکا افغانستان پر قبضہ کے بعد ہماری طرف پلٹے گا۔ ہمیں اس کی تیاری کر لینی چاہیے‘‘جو شخص شہیدوں کے خون کے خلاف ہو۔ اللہ اسے معاف نہیں کرتا‘‘ جنرل مشرف نے کچھ بولنا چاہا مگر ان کی زبان ساتھ نہ دے سکی اور کانفرنس ختم ہو گئی۔ اس کے بعد اس کا عتاب مجھ پر نازل ہوا۔مشرف نے میرا قائم کردہ ادارہ’’ فرینڈ ز‘‘ جس کے تحت میں قوم و ملت کی خدمت کرتا تھا اسے بند کروا دیا گیا۔مگربہت کچھ کرنے کے باوجود میرا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔میں حق پر تھا اور حق نے مجھے محفوظ رکھا۔ اس کانفرنس میں جید سیاست دان،علماء دانشور،سفارت کار، اور بیرو کریٹ میں سے کسی نے زبان نہیں اُٹھائی۔(راقم! ریکارڈ درست کرنے کے لیے عرض ہے کہ دوسروں کے لیے کچھ کہہ نہیں سکتے مگر جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم نے قاضی حسین احمد نے مخالفت کی تھی۔
مرزا اسلم بیگ کی ساری باتیں درست ثابت ہوئیں ۔ اب امریکا افغانستان سے نکل گیا۔ طالبان نے اس تحریر کے دن مورخہ ۲ ستمبر کو اعلان کیا ہے کہ دو دن میں نئی حکومت بنے گی جس میں عورتیں بھی شامل ہونگی۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اعلان کیا کہ بروز جمعہ پوری قوم یوم تشکر منائے۔ طالبان نے امارت اسلامیہ افغانستان کی بنیاد رکھ دی۔
اقتدار کی ہوس میں ہمارے ارباب فکر و نظر اندیشہ سودو زیاں کے تحت اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔حکمرانوں کو روکتے نہیں ،ٹوکتے نہیں ۔ یہ ہی ہمارا المیہ ہے۔( باب پنجم۲۳۲) لکھتے ہیں اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سچ پر مبنی ہے۔ سچائی کی وجہ سے میں نے کئی بار نقصان اُٹھایا ہے جس کی تفصیل اس کتاب میںموجود ہے۔لکھتے ہیں کہ جامعہ حفصہ کے بعد فوج کو وزیرستان، باجوڑ اور سوات میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف صف آرا کر دیا گیا۔ امریکا کی طرف سے دبائو ہے کہ پاکستان اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھے ۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے جامعہ حفصہ میں بے گناہ بچیوں کے خلاف آپریشن کی حمایت کی۔لکھتے ہیں کچھ بچیوں ۴ جولائی کو باہر آئیں تو پندرہ سو بچیاں جواندر تھیں جو باہر نہیں نکل سکیں۔کسی کو پتہ نہیں کی ان کے ساتھ کیا ہوا ہے اگر وہ شہید کر دی گئی تو ان کی لاشیں کہاں ہیں؟۔اس کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائل نے پاکستان کی مخالفت کی۔مشرف نے امریکا کے دبائو پر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف الزامات لگائے۔ نواز شریف کو آٹھ سال ملک سے سے باہر رہنے پر مجبور کیا۔مرزا اسلم بیگ داہش کو خوارج سمجھتے ہیں۔نظریاتی ایران، جہادی افغانستان اور اسلامی پاکستان کو ایک اتحاد میں دیکھنا چاہتے ہیں۔لکھتے ہیں کہ ۱۹۸۹ء میں ایرانی پاسداران کا ایک وفد جنرک محسن رجائی کی زیر قیادت پاکستان آیا تھا۔ اس وقت جنرل قاسم سلیمانی پاسداران کے ڈویژنل کمانڈر تھے۔اس وقت کی میرے ساتھ ایک پرانی تصویر کو جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میںشہید کرنے کے بعد امریکا نے امریکا جاری کیا تاکہ لوگ مجھے عالمی دہشت گرد سمجھنے لگیں۔راقم! نہیں نہیں ہر گز نہیں۔ مرزا اسلم بیگ تو پرامن مسلمانوں کے ایک عظیم جنرل ہیں۔ امریکااور اس کے نیٹو اتحادیوں کو تو افغانستان میں منہ کی کھانی پڑھی ۔
صاحبو! مرزاسلم بیگ کی کتاب سوانح حیات ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘کوراقم نے باریکی سے مطالعہ کیا۔مجھے لگا کہ جماعت اسلامی پاکستان کا بیانیہ مرزاسلم بیگ کے اندر بھرا ہوا ہے۔جو اُنہوں نے اپنی کتاب ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ میں بیان کیا ہے ۔صرف کسی ان جانی مصلحت کی وجہ سے جماعت اسلامی سے جوڑنے کا اظہار نہیں کیا۔ اس میں شک نہیں کہ مرزا اسلم بیگ خاندانی طور پر اسلام کے شیدائی، دو قومی نظریہ کے پر چارک، قائد اعظمؒ کے اسلامی وژن کے سپاہی ، پاکستان بنانے والوں کی روحوں کو تقویت پہنچانے اور اللہ سے’’ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ‘‘ کا وعدہ نبانے کے مشن کو پورا کرنے والے اور پاکستان میں اسلامی نظامِ حکومت قائم رکھنے کے خواہش مند اور امت مسلمہ کے درد رکھنے والے ایک محسن مسلمان، ہمیشہ حق اور سچ پر ڈٹ جانے والے اس ایک با فراست جنرل اور ایک باعمل مومن ہیں۔اس کے دور میں پاک افواج کی جدیداور اسلامی طرز پر تربیت ہوئی جو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ اللہ انہیں تاحیات تندرستی کی زندگی عطا فرمائے آمین۔

متعلقہ خبریں